رعونت عقل پہ انساں کی پردہ ڈال دیتی ہے
سب اٹھنے والی آوازوں پہ پہرہ ڈال دیتی ہے
سیاست پھولنے پھلنے نہیں دیتی ہے لوگوں کو
ہمیشہ دوستوں کے دل میں کینہ ڈال دیتی ہے
تمہارے طنزیہ لفظوں سے ہوتا ہے جگر چھلنی
تمہاری بات دل پر زخم گہرا ڈال دیتی ہے
مسائل کے بھنور کو پار کر جاتا ہوں لمحے میں
مری ہمت سمندر میں سفینہ ڈال دیتی ہے
مرے گھر کے ہر اک کھانے کی لذت وازوانی ہے
مری محنت جو روزی میں پسینہ ڈال دیتی ہے
میں جب گھر سے نکلتا ہوں دعا پڑھ کر نکلتا ہوں
مری ماں پھر بھی دس روپے کا صدقہ ڈال دیتی ہے
جہاں جاتا ہوں میں اللہ کی رحمت برستی ہے
مشیت دھوپ میں بادل کا سایہ ڈال دیتی ہے
ڈاکٹر شمس کمال انجم
صدر شعبۂ عربی/ اردو/ اسلامک اسٹڈیز
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
موبائل نمبر؛9086180380
سـتمگــر کے ستـم سہئے کسے کـیا فـرق پڑتاہے
اندھیروں میں پڑے رہیے کسے کیا فـرق پڑتاہے
اسے تو نام پہ مذہب کے بس کرنی سیاست ہے
کسـی کوبھی خـدا کہیے کسے کـیا فـرق پڑتاہے
لُٹا کے گھر کی عصمت کو چھپا کے اپنے چہروں کو
جھـکائے سـر کھـڑے رہیے کسے کیا فـرق پڑتاہے
سیاست سے عدالت تک یہاں سارے ہی بہرے ہیں
مسـلسـل چیختےرہیے کسے کـیا فـرق پڑتاہے
حمایت کرنے اٹھے ہیں غریبوں کی کسانوں کی
میاں عــرفانؔ چُپ رہیے کسے کـیا فرق پرتا ہے
عرفان عارفؔ
اسسٹنٹ پروفیسر اردوجموں
موبائل نمبر؛9682698032
دشت کا ہے نام یارو تِشنگی
سبزہ زاروں میں مگر تھی نغمگی
گرچہ ہے دم سے اِسی کے باغ گُل
خار میں دیکھی پڑی ننھی کلی
کل تلک آباد جنگل تھا جہاں
اب ہے واں شمشان کی سی خامشی
ذکر تو اس کا سُنا ہے بارہا
واقعی ہوتی بھی کیا ہے جل پری
دھاڑ سُن کے چُھپ گئے سب غار میں
شیر جب آیا مچی پھر کھلبلی
مشتاق مہدی
ملَہ باغ۔سرینگر کشمیر۔190006
موبائل نمبر؛9419072053
جب بھید ظاہر اور بھی ہوجائیں گے
تو لوگ قاہر اور بھی ہوجائیں گے
نسل و رنگ کی گر نمائش لگ گئی
پھر تو زائر اور بھی ہوجائیں گے
مثل سابق پھر اگر دُہرایا تو
کیس دائر اور بھی ہوجائیں گے
بیل نفرت کی جو مُنڈھے چڑھ گئی
اِسکے ماہر اور بھی ہوجائیں گے
پر شکستہ ہم اکیلے نا رہیں
ساتھی طائر اور بھی ہوجائیں گے
پہلے ہی کیا کم ہے کُچھ اور بھرا تو!
آپے سے باہر اور بھی ہوجائیں گے
فائقؔ معیارِ اُردو کیا کچھ کم ہوا
تجھ سےشاعر اور بھی ہوجائیںگے
عبدالمجید فائقؔ اُدھمپوری
موبائل نمبر؛9682129775
زبان ِ حال میں ماضی کا قصہ ہو گئی ہوں نا
میں اس کے ساتھ رہ کر اور تنہا ہو گئی ہوں نا
مسلسل خشک دریا سے لگی چلتی رہی شاید
تو اب لگتا ہے میں مانوسِ صحرا ہو گئی ہوں نا
گھنے بادل تو ہیں لیکن نہیں آثار بارش کے
عجب سا ہجر موسم ہے میں تشنہ ہو گئی ہوں نا
دلاتی ہے یقیں کیوں میرے ہونے کا بھری دنیا
گماں سے پوچھتی ہوں، کوئی دھوکا ہو گئی ہوں نا
سمندر تک پہنچنا ہے مگر اف دھوپ کی شدت
میں اپنی ذات میں خود خشک دریا ہو گئی ہوں نا
سبب شاید کسی کا یاد آجانا بنا خوشبوؔ
میں خود میں مر چکی تھی پھر سے زندہ ہو گئی ہوں نا
خوشبو ؔپروین قریشی
حیدر آباد
وہ مُفلسی بدوش کہ جینا محال تھا
بالکل تمہاری طرح مرا بھی یہ حال تھا
اتنی سی بات پر وہ وفا ہو گئے کہ بس
میں بس قطار میں ہوں مرا کیا ملال تھا
تھا کون ہمکلام میرے ساتھ رات بھر
وہ میں کہ تُو کہ دل تھا خدا تھا خیال تھا
اک کیفیت تھی ایسی کبھی اس وجود کی
آنکھوں میں جستجو تھی نہ لب پر سوال تھا
ظالم مجھے تو جُھوٹی تسلی نہ دے سکا
وہ ہو گیا کہ جس کا مجھے احتمال تھا
مانا کہ وہ تو زُود فراموش تھا مگر
ایسا معاملہ تو مرے حسبِ حال تھا
برباد کر دیئے وہ کہ پاشاؔ جیا نہ پوچھ
ظالم تھا،بے مہر تھا مگر بے مثال تھا
احمد پاشا جی
بڈکوٹ ہندوارہ
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اُردُو ڈگری کالج ہندوارہ
نفسا نفسی کا عالم ہے اِن دنوں
ہر کوئی پیکرِ غم ہے اِن دنوں
پھیکی پھیکی سی اب ہے یہ زندگی
رنگین بچپن کا البم ہے اِن دنوں
رشتے ہیں نام کے اُلفت سے تہی
بھائی بھائی سے برہم ہے ان دنوں
بس ہے خاموش رہنے میں خیریت
جس سے دیکھو ایٹم بم ہے ان دنوں
لمحے طارقؔ خوشی کے سب کھو گئے
ہر جا ہر وقت ماتم ہے ان دنوں
ابوضحی طارقؔ
اقبال کالونی، اونتی پورہ پلوامہ
موبائل نمبر؛8825016854
تجھ کو بھی ہے اس بات کا ملال ویسے ہی
دل میں ہے کسی اور کا خیال ویسے ہی
تیری نگاہوں میں عجب تھا منتظر کوئی
ہم تم سے پوچھنے لگے تھے حال ویسے ہی
ساحل پہ بیٹھے تھے سبھی گُم سُم سے رات بھر
سوچا بہت آیا نہیں خیال ویسے ہی
دشوار پوچھنا تھا مگر چاہ تھی بہت
کوشش تو کی سمجھے نہ تیرا حال ویسے ہی
سورج غروب تو چلا، جانا تھا کہیں دور
نا دیکھ پایا اُسکے وہ اِفعال ویسے ہی
چوکھٹ پہ تری رویا میرا دل بہت مگر
کیا بے بسی تھی آیا نہ خیال ویسے ہی
یامین یاسین
طالب علم بی اے فائنل ائر، پہانوں شوپیان