غمِ فرقت کے ہی اس روگ میں مر جائیں گے
اب کوئی ٹھیس لگے گی تو بکھر جائیں گے
پھول بنکر نکل آئے ہیں ہری شاخوں پر
وہ تو سمجھے تھے کہ حالات سے ڈر جائیں گے
ہم کو محصور نہ کرنا ہیں قلندر ہم بھی
رک گئے ہم تو زمانے بھی ٹھہر جائیں گے
دربدر ہو کے پلٹ آئے تُمہاری جانب
یہ دیوانے تری چوکھٹ سے کدھر جائیں گے
کتنے ناداں تھے کہ سوچا تھا تری صحبت میں
دو گھڑی اور رہیں گے تو سُدھر جائیں گے
ایک مٹی گا دِیّا لے کے جو نکلے گھر سے
ساتھ کب اُن کے بھلا شمس و قمر جائیں گے
اب وہ یاد اتے ہیں جاوید بڑی شدّت سے
عین مُمکن ہے کہ اب دل سے اُتر جائیں گے
سردار جاوید ؔخان
رابطہ؛ مینڈھر، پونچھ
رابطہ، 9419175198
وہ جو سکوتِ دو عالم سے ہم کلام نہیں
وہ بزم بزم نہیں ہے وہ جام جام نہیں
اٹھو اٹھو کہ یہ دنیا ہے جادۂ منزل
چلو چلو کہ ٹھہرنے کا یہ مقام نہیں
ابھی بھی راہِ وفا کو تلاش ہے تیری
یہ اور بات کہ تو مائلِ خرام نہیں
ابھی بھی عقدۂ دل کی کشود ممکن ہے
محبتیں ابھی باقی ہیں گرچہ عام نہیں
ابھی نجانے گزرنا ہے کیسی راہوں سے
کہ موت قصۂ ہستی کا اختتام نہیں
جو لوگ خانۂ دل کے مکین تھے ریحانؔ
زمانہ گزرا ہے اُن سے دُعا سلام نہیں
ریحان احمد تانترے
پونچھ جموں و کشمیر
موبائل نمبر؛ 9622088702
بے جھجک جان پرور دہر ظالم چلے آ
کوسوں تم دور ساکن شہر ظالم چلے آ
ہے عدو نہ کوئی یاور نہ ہی کوئی اپنا
ہر کوئی ہے یہاں بے مہر ظالم چلے آ
بن کے شامت گناہ یہ برس ہم پہ رہے ہیں
ہر سو برپا عجب ہے قہر ظالم چلے آ
بڑی مشکل سے تنہا کٹ رہی ہے یہ راتیں
تم بن تلخ ہے زندگی کا زہر ظالم چلے آ
ساتھ اس شہر میں مانگے مدد خدا سے ہم
پھیلی گھر گھر وبا کی لہر ظالم چلے آ
بعد مدت رہا لکھ ہوں یہ خالی غزل عادلؔ
چھوٹ ہم سے رہی ہے بحر ظالم چلے آ
عادلؔ حُسین
راجپورہ پلوامہ کشمیر
موبائل نمبر؛7889841414
جب سے آئے ہیں کہ اُس کے شہر میں
لِکھ رہیں ہیں تب سے سب کچھ بحر میں
عِشق جو ہم کو دِکھا ہے اب تلک
اب تلک تو ہم پھنسے ہیں ہجر میں
وہ تو اب بھی جی رہا اِس زہن میں
کٹ رہی ہو رات ساری قہر میں
ہم اُتر آئے جلانے حالِ دل
ہم نے پایا آشیاں سب زہر میں
دِکھ رہی ہےتشنگی کچھ اُس طرف
جس طرف ہے دشت سارا قہر میں
رہتے ہو کیا اِس جہاں میں آپ بھی
پھرتے ہو سب موت بن کے شہر میں
امان وؔافق
گریز بانڈی پورہ
موبائل نمبر؛9149929049
خوگر کر گئے مجھے میرے حال پر ہنسنے والے
مجھکو ڈسنے لگے میرے آستینوں میں پلنے والے
یہ آہ و فغاں ہر سو کوئی آخر سن تو لے
کیسی نیند سو ئےہیں اس بستی کے بسنے والے
دور نکل کے آئی ہوں ہار کے سانسوں کے موتی
جانے کونسے راستے ہیں منزلوں تک جانے والے
لواُڑنے کے فراق میں ہے تیرے پنجرے کا قیدی
روکنے سے کہاں رکتے ہیں یہ مسافر جانے والے
بت تراشے ہے یہاں سب نے شیشے کے گھروں میں
اب کے ہر گھر میں ملیں گے نمرود کےچاہنے والے
شب و روز گزر گئے اپنے تیرے سجدوں میں شجرؔ
بندوں سے کہاں ڈرتے ہیں اک خدا سے ڈرنے والے
ریحانہ شجرؔ
وزیر باغ سرینگر