موسلا دھار بارشیں ہونگی
ہجر کی پھر سے سازشیں ہونگی
میرا سادہ ورق لکھا جائے
حرف والوں کی کاوشیں ہونگی
رقص کرلوں گا چڑھ کے سولی پر
اور کیا آزمائشیں ہونگی
ایک خواہش پہ دم نکلتا ہے
ہم کہاں کے کہ خواہشیں ہونگی
ایک چھت آسماں کے دامن کی
دشت میں کیا رہائشیں ہونگی
دھوپ ٹھہری ہے پائیدانوں پر
یوں اُٹھانے کو نازشیں ہونگی
عشق نے ہجر کا سماں باندھا
روز دُکھ کی نمائشیں ہونگی
مل بھی جائیں تو کیا کہیں شیداؔ
اپنی تو بس گزارشیں ہونگی
علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد،اننت ناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛9419045087
اُس کے دل میں نہ جانے کیا غم تھا
جب بھی دیکھا اُسے وہ پُرنم تھا
زندگی اِس طرح میری گزری
سلسلہ رنج و غم کا پیہم تھا
کھویا کھویا تھا یہ خیالوں میں
دل کا عالم عجیب عالم تھا
مدتوں سے نہیں ملا مجھ سے
مدتوں سے وہ مجھ سے برہم تھا
اُس کا اظہار ہی وہ کردیتا
اُس کے دِل میں اگر کوئی غم تھا
سب کی آنکھوں سے کیوں تھے اشک رواں
شہر سارا جو محوِ ماتم تھا
اُلجھتا رہتا ہے مشکلوں سے ہتاشؔ
اُس کو احساس یہ بہت کم تھا
پیارے ہتاش
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607
آؤ بیٹھو پاس مرے، کچھ تو دل کی بات کرو
آئے ہو تو ہاتھ مِلاو، گفتگو بھی ساتھ کرو
برسوں سے تھے دور بہت، جاں کی بازی ہار گئے
بازی اب میں جیت چکا، تم جوچاہومات کرو
دستِ دل سے اشک بہا، آنکھیں کھولو آج ذرا
شام ِغم ہے ساتھ رہو،اور نہ کوئی بات کرو
تم جو ہنس دو، دن یہ بنے،تم جو رودو شام بنے
ایسا جادو رکھتے ہوتم ،آو،مانو، بات کرو
وقت کے ہاتھوں ٹوٹ گئے،خواب چکنا چور ہوئے
اب تو دل کے زخم سہی، تم بھی کچھ تو گھات کرو
تیری یادیں جاگ اٹھیں،دل نے دی ہے ایک صدا
اب تو ملنے آؤ ذرا، دل کی دل سے بات کرو
شہر جبرا ً چھوڑ دیا،زخم تیرے ساتھ لئے
اب نہ کہنا لوٹ چلو، اب نہ ایسی بات کرو
کیا سہانی شام تھی یاورؔ، غمِ بہار میں جب
میں نے اسکی بات سنی، کہہ رہی تھی بات کرو
یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ، کشمیر
موبائل نمبر؛6005929160
تیرے سادہ سے تحفے کو بھی سینے سے لگایا ہے
میرے دل نے تیرے پیتل کو بھی سونا بتایا ہے
حقیقت میں ہواؤں نے تیرا آنچل اُڑایا ہے
مگر مجھ کو لگا تو نے اِسے مجھ پر گرایا ہے
میرے آنگن میں جو تم نے کبھی رو پا تھا اک پودا
میں خود پیاسا رہا لیکن اسے پانی پلایا ہے
میرےہمسائےکے گھرپرہی تم آئےکبھی پھر بھی
کہ میں نے سخت محنت سے یہ اپنا گھر سجایا ہے
اشارہ توکیا تم نے میرے نزدیک والے کو
مگر مجھ کو لگاتم نے فقط مجھ کو بلایا ہے
اُٹھا ہوں ہڑ بڑی میں میز سے ٹکرا گیا ہوں میں
مجھے پھر یوںلگاتم نے میرادر کھٹکھٹایا ہے
یوںہی کاغذ پہ تم نے کچھ لکیریں کھینچی تھیں لیکن
میرےدل کو لگاتم نے ہمارا گھر بنایا ہے
تمہاری آنکھ میں مٹی گری لیکن میں یہ سمجھا
کہ میرے واسطے تم نے کوئی آنسو بہایا ہے
وگر نہ جیب میں میری رکھی تھی زہر کی شیشی
تمہارے ٹھیک ہونےپر اسے میں نے گرایا ہے
کسی دھرتی پہ غلطی سے گرا تھا بیج جو تم سے
حفاظت اس کی بھی کی ہے اسے پودا بنایا ہے
ارون شرما صاحبابادی
پٹیل نگر ،غازی آباد اُتر پردیش
مری خوشی ہے سدا تیری ہی خوشی کے لئے
میں جی رہا ہوں فقط ایک آپ ہی کے لئے
یہی مقام ہے اک شان آدمی کے لئے
کہ اپنی بھی خوشی وہ وار دے کسی کے لئے
عدا وتوں کے کوئی رستے بھی نہ دل میں رہیں
بہت ضروری ہے یہ راہ دوستی کے لئے
چلو چلیں یہاں سے بن میں اب بسیرا کریں
کہ آدمی ہے یہاں خطرہ آدمی کے لئے
فقط عبادتیں سجدوں کا ہی تو نام نہیں
خلوص دل بھی ضروری ہے بندگی کے لئے
قدم قدم پہ وہ بھی پاتے ہیں سدا کانٹے
جو بوتے ہیں سدا کانٹے ہی ہر کسی کے لئے
معین وہ بھی ہمیں راہزن لگے ہر گام
ہمیں ملے یہاں جو لوگ رہبری کے لئے
معین فخر معین
موبائل نمبر؛003443837244
اس سے پہلے کہ ہو اعلانِ قیامت کوئی
اب محبت کاتقاضا ہے کرامت کوئی
اے مری جانِ سخن چاہ میں تیری کب سے
اپنی ہی جان سے رکھتا ہے عداوت کوئی
ڈھونڈ لاؤ مری خاطر کوئی زنجیرِ جنوں
میری پلکوں پہ رکھے سنگِ قناعت کوئی
حسبِ معمول گزرتی ہے بڑی مشکل سے
جیسے ہر سانس پہ ہو بارِ امانت کوئی
ورق در ورق ہے وابستہ مری جاں تم سے
اک مٹائی ہوئی آدھی سی عبارت کوئی
پوچھتے ہیں یہ خلشؔ کیسے گزر جاتی ہے
ہے شبِ ہجر یہ محشر کی علامت کوئی
سجاد سلیمان خلشؔ
اسلام آباد ، کشمیر
موبائل نمبر؛7889506582
اُٹھے منظر سے کتنے ہی بشر آہستہ آہستہ
نگل جاتی زمیں شمس و قمر آہستہ آہستہ
یوں ہی آوارگی میں گھوم آئے ساری دنیا ہم
مگر پھر لوٹ آئے اپنے گھر آہستہ آہستہ
پسِ دیوار کوئی چِیختی آواز کہتی ہے
تمہارے در پہ پھوڑیں گے یہ سر آہستہ آہستہ
سکوتِ شب میں اکثر سوچتے ہیں کس نے نفرت کا
ملایا ان فضاؤں میں زہر آہستہ آہستہ
کبھی اے دوست ہم تم سایہ بن کر ساتھ رہتے تھے
مراسم ہو گئے پھر مختصر آہستہ آہستہ
رُخسانہ پروین
باغات، برزلہ، سرینگر، کشمیر
ہوا نہ حاصل مجھ کو میری کاوِش کا حدف
حصولِ چاند تھا کب میری خواہش کا حدف
تمام عمر بھی نہ ہمیں جو ہوسکا حاصل
وہ تھا ایک مگر اُن کی جنبش کا حدف
ہو کچھ بھی اور اِس کا ساتھ اس کے مگر
مجھ کو ہوش میں لانا ہے مری لغزش کا حدف
ہے محض یہی اگر تو بھی کیا کیجئے گا
دِل سے کھیلنا میرے اُس مہ وِش کا حدف
ہماری قسمت ہو اچھی تو ہے ممکن صورتؔ
حاصل ہونا ہمیں ہماری کوشش کا حدف
صورت ؔسنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549