مجھ میں گاؤں ہے اور میں گاؤں میں
شہر کس طرح آؤں جاؤں میں
آج پھر ہجر کے مصلے پر
شب گزر جائے گی دعاؤں میں
اے مرے دشت زاد شہزادے
آؤ بیٹھیں تھکن کی چھاؤں میں
استعاروں میں بھر دیا ہے تمہیں
شعر ہوتے ہی گنگناؤں میں
درد کو ہم نے لذتیں بخشیں
اور کیا کیا تجھے بتاؤں میں
اب جو عریانیوں سے باہر ہوں
آپ اپنا کہاں چھپاؤں میں
آؤ شیداؔ کے آشیانے پر
ایک تازہ غزل سناؤں میں
علی شیداؔؔ
نجدون نیپورہ اسلام ا?باد، اننت ناگ
موبائل نمبر؛9419045087
اُجلا منظر میرے ساتھ
دل کا دفتر میرے ساتھ
شہرِ عشق کی جانب ہاں
نکلو بے ذر میرے ساتھ
ہنستے ہنستے ہوتا ہے
دھوکہ اکثر میرے ساتھ
میخانے میں کُھلتا ہے
قطرہ پی کر میرے ساتھ
چلنے پر مجبور ہے تو
خود سے لڑ کر میرے ساتھ
اندر کے صحرا میں ڈھونڈ
ہو جا بے گھر میرے ساتھ
شہنواز احمد
شالی پورہ کولگام ، کشمیر
موبائل نمبر؛9596393985
بھیگی زلفوں کو وہ جب چھت پہ سکھانے آئے
یوں لگا جیسے کہ ساون کے زمانے آئے
جس طرح پھول سے خوشبو کو چُراتی ہے نسیم
اس طرح مجھ سے کوئی دل کو چرانے آئے
ہوک سی دل میں اُٹھی ،ہوگئیں آنکھیں پُرنم
یاد جب جب بھی ہمیں گزرے زمانے آئے
میں اسے جا کے ملوں اس کی تمنّا یہ ہے
میری خواہش ہے کہ وہ مجھ کو منانے آئے
ہم بھی بازار میں یوسف کی طرح بیٹھے ہیں
ہے زلیخا جو کوئی دام لگانے آئے
ہم بڑے چین سے سوئے ہیں اپنے مرقد میں
اب یہاں پر نہ کوئی ہم کو ستانے آئے
غم وہ تنہا نہ اٹھا پائے گا اُس سے کہہ دو
اپنے آنسو میری پلکوں پہ سجانے آئے
چاندنی رات میں بچھڑا تھا کوئی ہم سے رفیق
چاند نکلا تو کئی یاد فسانے آئے
رفیقؔ عثمانی
سابق آفس سپرانٹنڈنٹ BSNL
آکولہ ، مہاراشٹرا
اپنے ہونے پہ مان تھا ہی نہیں
جو تھا اس کا بیان تھا ہی نہیں
وہ یقینوں کا تھا یقین مگر
مجھے اس کا گمان تھا ہی نہیں
ہم نبھاتے نبھاتے تھک گئے وہ
جو کبھی درمیان تھا ہی نہیں
یہ زمانہ زمانہ ہی تھا مگر
تو بھی تو مہربان تھا ہی نہیں
مجھ کو کیسے تمہارا دھیان آتا
مجھ کو اپنا بھی دھیان تھا ہی نہیں
مرکزِ ذات جو تھا وہ دراصل
مرکزِ داستان تھا ہی نہیں
تیری اس بزمِ خوش گماں میں کوئی
مجھ سا بھی بدگمان تھا ہی نہیں
تقش تھا پر مکان تھا ہی نہیں
کسی شے کا نشان تھا ہی نہیں
تھی عجب دید آنکھ بند کی تو
درمیاں آسمان تھا ہی نہیں
میر شہریار
بجبہاڑا اسلام آباد، کشمیر
موبائل نمبر؛7780895105
خالی پڑی زمین کو اس بار دیکھ کر
خاموش رہ گیا کوئی گھر بار دیکھ کر
بکنے کے واسطے اسے تیار دیکھ کر
دوبارہ کوئی آیا ہے بازار دیکھ کر
حیران رہ گیا کوئی راحت کے واسطے
کاغذ کے آج پھول کا انکار دیکھ کر
محدود صرف چند گھروں تک نہیں ہے کچھ
خوش ہو رہا ہے آج وہ تہوار دیکھ کر
اپنی تلاش کرنے لگا ہے یہاں کوئی
مشکل میں آج اپنے طرف دار دیکھ کر
جب اُس نے اس کی شکل کو دوبارہ دیکھا تو
یہ وید آج رہ گیا بیمار دیکھ کر
کتنے ہی لوگ اس کا پتا پوچھنے لگے
ہاتھوں میں اُس کے سونے کی تلوار دیکھ کر
میں نے غموں کو جانچا تو حیران رہ گیا
خوشیوں کا اپنے سامنے انبار دیکھ کر
چہرہ لباس اپنا بدل لیتا ہے کوئی،
سامان بیچتا ہے وہ تہوار دیکھ کر۔
کتنے کھلونے والے اندھیرے میں ہیں کھڑے
بستی میں آج مٹی کا بیوپار دیکھ کر
ارونؔ شرما صاحبابادی
پٹیل نگر ،غازی آباد اُتر پردیش
یہی حل ایک اچھا ہے ہماری بے قراری کا
تمہیں ہم پوجنا چھوڑیں ہمیں تم سوچنا چھوڑو
عذابِ روح قیامت ہے میری اک التجا سُن لے
نظر ہم بھی چرائیں گے مگر تم دیکھنا چھوڑو
ہتھیلی کی لکیروں کو مٹانا بھی نہیں اچھا
ہمیں لللٰہ دعاؤں میں خدا سے مانگنا چھوڑو
لہو جس میں مہکتا ہے سرخ الفاظ ہیں جس میں
وہ سارے خط جلا دوں گا مگر تم چاہنا چھوڑو
سنو ہوگا یہی اچھا جئیں ہم اجنبی بن کر
کہاں ہو اور کیسے ہو خدارا پوچھنا چھوڑو
جہاں مرضی اُدھر جاؤ ہمیں بھی جام پینے دو
تمہیں ہم روکنا چھوڑیں ہمیں تم ٹوکنا چھوڑو
بتا دوں جان کیسا ہوں؟ زمین کی خاک جیسا ہوں
فلک ؔپلکوں کی جالر سے ہمیں تم جھانکنا چھوڑو
فلکؔ ریاض
حسینی کالونی چھترگام کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109
میرے حُجرے میں جو شب کو جلتا ہے چراغ
اونچی حویلی کو بہت وہ کَھلتا ہے وہ چراغ
یہ محض فطرت ہے اِس کی جب جلاتے ہیں
شب میں ہمیں روشنی عطا کرتا ہے چراغ
تاریکی میں ہمیں وہ دیتا ہے روشنی تب
آگ میں اپنی ہی خود جب جلتا ہے چراغ
ہے تیرا ہی کرم یہ جو ابھی تک ہو روشن
آندھی میں وگرنہ کہاں جلتا ہے چراغ
بُجھا دیتے ہیں اِسے جب ہوجاتی ہے سحر
شب ہوتی ہے جب تلک ہی جلتا ہے چراغ
جلتا نہیں ہے از خود یہ بُجھا ہو اصورتؔ
کوئی جلاتا ہے اِسے جب، جلتا ہے چراغ
صورت سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549
میں خود سے آگے بڑھا اور یہی کمال ہوا
نہ کوئی ہارا یہاں نہ کوئی سوال ہوا
نہ تاج مانگا کبھی نہ تخت کی آرزوکی
بس ایک سکون ملا اور وہ بھی حلال ہوا
جو زخم اپنے تھے ان پہ میں نے مرہم کیا
کسی پہ بوجھ نہ ڈالا، یہی خیال ہوا
میں چیخ چیخ کے ثابت نہ کر سکا خود کو
تو خامشی سے جوابوں کا احتمال ہوا
جو خواب دیکھے، وہی تعبیر کر لئے میں نے
نہ منتوں کا سفر نہ کوئی ملال ہوا
جو ہار تھی وہ بھی جیت سے کم نہ تھی شاہدؔ
میں سیکھتا گیا اور دل خوش حال ہوا
شاہد یوسف شاہد ؔ
طالب علم 11ویں جماعت
نندی مرگ کولگام، کشمیر
بات کرنے کے لئے لب پر تبسم چاہئے
نرم ہو نازک ہو وہ طرز تکلم چاہئے
مثلِ خورشید و قمر چھا جائیں گے دنیا پہ ہم
روز و شب چہرے پہ نورانی تیمم چاہئے
خود تصوف سے الگ رہ کر جناب شیخ جی
مجھ کو کہتے ہیں تصوف کا تعلم چاہئے
سنگ دل بھی مہرباں ہو جائے گا اک دن ضرور
آدمی کی ذات میں حسن تقدم چاہئے
کب تلک ہم در بدر پھرتے رہیں گے اے صنم
زندگی ہے اک غزل کچھ دھن ترنم چاہئے
تو کہاں اور میں کہاں دونوں کی صورت ہے الگ
’’ کچھ تو لطف لمس آغوش تلاطم چاہئے‘‘
کون سی نعمت کو تو جھٹلائے گا ہر ایک پل
اے سعید ؔقادری تم کو تفہم چاہئے
سعید قادری
صاحبگنج مظفرپور بہار
موبائل نمبر؛9262934249