چاہیئے تکمیل کی منزل کو پانے کے لئے
مجھ کو اک کردارِ نسوانی فسانے کے لئے
اب فقط اس زندگانی کے سوا اے میرے یار
اور باقی کیا بچا تجھ پر لُٹانے کے لئے
تیرے بن جی ہی نہیں پاؤں گا اب یہ زندگی
کیا کروں آخر تجھے اپنا بنانے کے لئے
آپ کو حساس نظریں رکھنی ہوں گی آنکھ میں
میرے دل کی کیفیت کو جان پانے کے لئے
جسم کی قربت سے رہنا ہوگا جاناں دور دور
زندگی بھر پیار کی لذت اٹھانے کے لئے
میں نے جس کے واسطے ٹھکرا دیا سنسار کو
اُف اسی نے مجھ کو چھوڑا ہے زمانے کے لئے
لے لو اپنے خوبرو لب سے ہمارا نام بھی
تم ہمارے نام کی قیمت بڑھانے کے لئے
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج، بارہ بنکی یوپی، انڈیا
دور تک افسردگی کے دل پہ بادل چھاگئے
یاد جب گزرے ہوئے ہم کو زمانے آگئے
کس قدر وحشت کی ننگی دھوپ باغِ دل میں تھی
آرزو کے پھول سارے بِن کِھلے مُرجھا گئے
سامنے غم کا سمندر اور پیچھے دشتِ کرب
چلتے چلتے ہم نہ جانے کس جگہ پر آگئے
آشیاں بھی اپنا اُجڑا ، خون بھی اپنا بہا
اور پھر الزام بھی اپنے ہی سر پہ آگئے
کھیت پھر حسرت بھری نظروں سے تکتے رہ گئے
ابر، اپنے آپ کو دریاؤں پہ برسا گئے
ہم جو اہلِ کارواں تھے رہ گئے پیچھے رفیقؔ
لوگ جو گمراہ تھے ، وہ سب منازل پاگئے
رفیقؔ عثمانی
سابق آفس سپرانٹنڈنٹ BSNL
آکولہ ، مہاراشٹرا
کیا ہے کمرے کے باہر نہیں معلوم
باغ، دشت، سمندر نہیں معلوم
آتا ہے دلِ آوارہ سرِ صبح
ہوتا ہے کہاں شب بھر نہیں معلوم
وہ ازل سے ہی خاموش پڑا ہے
کون ہے مرے اندر نہیں معلوم
چھایا جس کا فسوں چاروں طرف ہے
ہے کہاں وہ فسوں گر نہیں معلوم
چاروں اور تھیں دیواریں مگر آج
یہ کہاں سے کُھلا در نہیں معلوم
میں کہانی کا منظر ہوں عیاں ہوں
ہاں مگر پسِ منظر نہیں معلوم
کیسے ہے ہرا اس فصلِ خزاں میں
ایک سروِ صنوبر نہیں معلوم
خود سے بھی تھا رم، نہ جانے میں کیسے
آ پڑا ترے در پر نہیں معلوم
ایسی خانہ خرابی سے رفیقو
کب یہ دل ہوا خوگر نہیں معلوم
میر شہریارؔ
اننت ناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛7780895105
میری کھانسی سے بھی اس کا دل کانپتا
ماں کے آگے کبھی میں نہیں کھانستا
مرتے مرتے بچی تھی میرے واسطے
ماں کے اب پیار کو میں نہیں جانچتا
اس کو انداز ہے سب میری بھوک کا
ماں سے روٹی میں گن کر نہیں مانگتا
میں بڑا ہو گیا ہوں مگر آج بھی
ماں کے آگے کنویں میں نہیں جھانگتا
پیر ماں کے دباتا ہوں میں دیر تک
ایک پل کو بھی لیکن نہیں ہانپتا
ماں سے مل جاتی ہیں ساری خوشیاں مجھے
ماں سے پہلے میں رب سے نہیں مانگتا
میری ماں ہی انہیں ٹانکتی ہے سدا
میں کہ ٹوٹے بٹن خود نہیں ٹانکتا
میرے شیطان بچے کی وہ دادی ہے
ماں کے آگے میں اس کو نہیں ڈانٹتا
جو بھی کہتی ہے وہ مان لیتا ہوں میں
بات ماں کی غلط بھی نہیں کاٹتا
ماں مجھے تھپتھپا کر سلاتی ہے تو
رات کے بیچ میں میں نہیں جاگتا
ارون شرما صاحبابادی
پٹیل نگر ،غازی آباد اُتر پردیش
دور جانا ہے تو پھر پاس یوں آتے کیوں ہو؟
دل کو تڑپا کے اکیلے میں ستاتے کیوں ہو؟
جب محبت ہے تو پھر اُس میں جدائی کیوں ہے؟
میرے پہلو میں نہیں خیمہ لگاتے کیوں ہو؟
ایک لمحہ کی جدائی بھی بہت ہے مجھ کو
دیر تک مجھ کو نظر سے یوں ہٹاتے کیوں ہو؟
تم مرے حال پہ تھوڑا سا ترحم کر لو
بے سبب مجھ کو اے جانِ جاں ستاتے کیوں ہو ؟
جو بھی ہے، صاف بتاؤ کہ ارادہ کیا ہے؟
بات کو دل میں چھپا کر یوں لجاتے کیوں ہو؟
جب حبیبوں سی وفا ہے تو رقیبوں جیسی
حرکتیں کرکے مرا دل دُکھاتے کیوں ہو ؟
کیسر خان قیس
ٹنگواری بالا ضلع بارہ ملہ ، کشمیر
موبائل نمبر؛6006242157
یوں محبت کو فسانہ کر لیا
جب غمِ دل سے یارانہ کر لیا
اشک بار عشق کے طو فاں میں
جذب خود میں ہر زمانہ کر لیا
زندگی سے موت کا سودا کیا
سازِ دل پر تازیانہ کر لیا
عکس آئینہ محبت ہو گئی
آئینہ خانہ شاہانہ کر لیا
یہ کلام نا رسائی سے ہوا
پھر غزل کو دل رَبا نہ کر لیا
دل کے میخانہ میں ہے مستی بہت
اس میں بھارتیؔ نے آ نا جانا کر لیا
ٹی این بھارتی
نئی دلی
موبائل نمبر؛8802254915
حق پر اپنا اگر یہ جہاں ہے میاں
اپنے حق میں زمیں آسماں ہے میاں
بے کسی بے بسی کا یہ عالم یہاں
بس ہمارے لئے امتحاں ہے میاں
آج گھر سے بے گھر ہورہے ہیں وہ سب
کل تمہیں بھی ہونا بے مکاں ہے میاں
کوئی رستہ نہ منزل دکھائی دے اب
دیکھو اب زندگی بے نشاں ہے میاں
آپ ہیں آسماں نہ زمیں پر کہیں
اب وجود آپ کا بھی کہاں ہے میاں
محمد فاروق گیاوی کلال
سرواں بازار،بارہ چٹی، گیا بہار
موبائل نمبر؛9905021495
ممکن ہی نہیں گر یہ وفا کرنا ہے وعدہ
تو نے ملنے کا کبھی پھر کیوں کیا ہے وعدہ
ہوکیسا بھی جو ہم چاہیں اِس کا تو نہیں
ملے گا ہمیں جو وہ چاہے، اِس کا ہے وعدہ
کرکے صاف انکار اِس سے کہا اُس نے یہ
تم سے کون سا کب کس نے کیا ہے وعدہ
ہم نے ہی کیا نہ کوئی محبت میں کبھی
اُس نے تو ہر وہ کیا جو وفا کیا ہے وعدہ
کریں گے کیسے کبھی ہم اِس کو وفا صورتؔ
سوچ کے یہ ہم نے کسی سے نہ کیا ہے وعدہ
صورت ؔسنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549