ہیں کتنے دل شکن جذبات میرے
کریں گے کیا یہاں جذبات میرے
میں ظاہر میں شگفتہ پھول سا ہوں
مگر ہیں مختلف حالات میرے
یہ راہِ حق ہے مجھ کو دیکھنا ہے
کہاں تک وہ چلیں گے ساتھ میرے
کسی پر جب پڑی کوئی مصیبت
دُعا کو اُٹھ گئے ہیں ہاتھ میرے
وہ رہنے لگ گئے ہیں مجھ سے برہم
کہ سچ ہوتے گئے خدشات میرے
مجھے تسلیم ہے میں دل شکن ہوں
مگر نہیں تازہ دم جذبات میرے
ہتاشؔ اس کو کہوں تو کیا کہوں میں
وہ دُشمن بن گئے بے بات میرے
پیارے ہتاشؔ
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607
لے گیا وہ ہر خوشی اب تو بچا کچھ بھی نہیں
مفلسی اِک شاعری ، اس کے سوا کچھ بھی نہیں
اِس سے بڑھ کر آج تک دیکھی سزا کچھ بھی نہیں
قید ہوں اپنے ہی گھر میں اور خطا کچھ بھی نہیں
میں مسافر گاؤں کا ہوں اجنبی ہوں شہر میں
بھیڑ میں رہنے کا مجھ کو تجربہ کچھ بھی نہیں
کسی طرح زندہ رہوں تجھ سے بچھڑ کر آج میں
تُو نہیں تو زندگی میں پھر مزا کچھ بھی نہیں
کس طرح سے نام پیدا شاعری میں کر لیا
جبکہ سیفیؔ آج تک تو ُنے پڑھا کچھ بھی نہیں
سیفیؔ سرونجی
مدیرسہ ماہی’انتساب عالمی‘،سرونج
موبائل نمبر؛9425641777
عکس آنکھوں میں بسانے میں بڑی دیر لگی
آپکا ہو کے دکھانے میں بڑی دیر لگی
پھر ہوا یوں کہ بچھڑنا پڑا باہم ہم کو
دوریاں دل سے مٹانے میں بڑی دیر لگی
اُس نے توڑا تھا مرے دل کو بہت آہستہ
کرچیاں مجھ کو اٹھانے میں بڑی دیر لگی
نہ تسلی نہ دلاسہ مرے کچھ کام آیا
ابنِ مریم تجھے آنے میں بڑی دیر لگی
ایک ٹھوکر سے بدن ہو گیا ریزہ ریزہ
پھر سے تعمیر اٹھانے میں بڑی دیر لگی
سردارجاوؔیدخان
مینڈر، پونچھ،جموں
موبائل نمبر؛9419175198
شیشے کا کاروبار ہے پتھر کے شہر میں
گھر اپنا میرے یار ہے پتھر کے شہر میں
ٹپکے گا آسمان سے میری جبیں کا خون
نیزے پہ سر سوار ہے پتھر کے شہر میں
کاندھوں پہ بے زبان کے ڈالو نہ اتنا بوجھ
معصوم راہوار ہے پتھر کے شہر میں
ٹھوکر کی زد میں ڈالیاں اللہ رحم کر
ہر پھول اشکبار ہے پتھر کے شہر میں
کس کی صدا ہے ٓائیے خنجر بنی ہے پیاس
یہ کس کا آب دار ہے پتھر کے شہر میں
جگ میں فلکؔ کو دیکھ کے لگتا ہے بس یہی
پھولوں کا جیسے ہار ہے پتھر کے شہر میں
فلکؔ ریاض
حسینی کالونی چھترگام کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109
چلا گیا میرے گمان سے دور
زمیں کا بوجھ آسمان سے دور
نہ آؤ دیکھا ہے اور نہ تاؤ دیکھا
جبھی گئے کسی جہان سے دور
امیری اور غریبی سے ندارد
پلا ہوا ہوں آن بان سے دور
نیازمند ہوں نہ عرض خاموش
ہوئی ہے زندگی امان سے دور
کھلی جو نین تو ہوا میں بیدار
دل شکستہ دھیان سے دور
چلا گیا جو تیر نیم کش کو
وہ ہولے سے چلی کمان سے دور
دلِ امید کی نہ پوچھ یاورؔ
کہ ذرہ ذرہ ہے گمان سے دور
یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ، کشمیر
موبائل نمبر؛6005929160
مسلکِ عشق میں جب خوب کہا جاتا ہے
دشمنِ جاں کو بھی محبوب کہا جاتا ہے
آپ کے پاؤں میں کانٹے کی طرح چبھتی ہے
نرم و نازک سی جسے دوب کہا جاتا ہے
ہم تو اللہ کے شاگرد ہیں پھر بھی واعظ
کیوں ہمیں وعظ میں مجذوب کہا جاتا ہے
تیرے ہونے کا کہیں پر ہے یقیں اور کہیں
ِابنِ مریم تجھے مصلوب کہا جاتا ہے
وہ مقام آتے ہیں اس تشنہ لبی میں اکثر
کہ جہاں زہر کو مرغوب کہا جاتا ہے
ایک مدت سے یہی رسمِ جہاں ہے شاید
ہر ہنر مند کو معیوب کہا جاتا ہے
جس علاقے میں تھے آباد کبھی عاد و ثمود
اس علاقے کو بھی مغضوب کہا جاتا ہے
مصداقؔ اعظمی
جوماں، پھولپور، اعظم گڑھ
موبائل نمبر؛9451431700
دینِ اسلام کی اشاعت میں
زندگی ہو بسر عبادت میں
میرے استاذ نے یہ فرمایا
وقت کم ہے بہت قیامت میں
ہاتھ آیا ہے جب سے موبائل
لطف آتا نہیں عبادت میں
چادرِ مصلحت ہٹاکر کے
آئیے کُھل کے اب سیاست میں
کیا بتاؤں میں حال دل تم کو
رات کٹتی ہے کیسے فرقت میں
اس طرح تم اداس رہتے ہو
*جیسے بیوہ ہو کوئی عدت میں*
چھوڑ کر شعرو شاعری احسنؔ
خود کو مصروف رکھ تلاوت میں
ازقلم افتخار حسین احسنؔ
بانکا،بھاگل پور، بہار
موبائل نمبر؛6202288565
کتنے ہیں طوفاں مرے دل میں وفا کے
ہم دکھا دیں گے تجھے جاں یہ لُٹا کے
کر دئے تابندہ شہر دل کے راستے
دیپ اُلفت کے تو نے دل میں جلا کے
تلخیٔ غم کو بھلا دیتے ہیں ہم تو
ہو نٹوں پہ ہلکی سی اک مسکاں سجا کے
ہر خوشی تجھ کو ملے سارے جہاں کی
ہیں لبوں پر میرے تحفے یہ دعا کے
مشکلیں ہر راہ کی آساں ہو جا ئیں
گر چلیں ہم ساتھ ہاتھوں کو ملا کے
جو خدا خود کو سمجھتے ہیں معینؔ آج
بھول بیٹھے وہ بھی ہیں بندے خدا کے
معین فخر معین ؔ
موبائل نمبر؛003443837244