غم ہی گر جاگیر ہے تو کیا ہوا
دل اگر دل گیر ہے تو کیا ہوا
رات ظلمت گیر ہے تو کیا ہوا
مؤجبِ تزویر ہے تو کیا ہوا
رقص کرنے کا جنوں ہے خون میں
پاؤں میں زنجیر ہے تو کیا ہوا
دم کہاں سے لائے گا میرا عدُو
ہاتھ میں شمشیر ہے تو کیا ہوا
جانتے ہیں ہم بھی بچنے کے ہنر
آگ دامن گیر ہے تو کیا ہوا
بوئے گُل سے لوگ ہیں نا آشنا
خار کی توقیر ہے تو کیا ہوا
گوہرِؔ نایاب ہوں میں شہر میں
کم اگر تشہیر ہے تو کیا ہوا
گوہرؔ بانہالی
بانہال جموں
موبائل نمبر؛9906171211
مسلکِ عشق میں جب خوب کہا جاتا ہے
دشمنِ جاں کو بھی محبوب کہا جاتا ہے
آپ کے پاؤں میں کانٹے کی طرح چبھتی ہے
نرم و نازک سی جسے دوب کہا جاتا ہے
ہم تو اللہ کے شاگرد ہیں پھر بھی واعظ
کیوں ہمیں وعظ میں مجذوب کہا جاتا ہے
تیرے ہونے کا کہیں پر ہے یقیں اور کہیں
ِابنِ مریم تجھے مصلوب کہا جاتا ہے
وہ مقام آتے ہیں اس تشنہ لبی میں اکثر
کہ جہاں زہر کو مرغوب کہا جاتا ہے
ایک مدت سے یہی رسمِ جہاں ہے شاید
ہر ہنر مند کو معیوب کہا جاتا ہے
جس علاقے میں تھے آباد کبھی عاد و ثمود
اس علاقے کو بھی مغضوب کہا جاتا ہے
مصداقؔ اعظمی
جوماں، پھولپور، اعظم گڑھ
موبائل نمبر؛9451431700
اک بار آ کے دل کے مرے آئینے بھی دیکھ
دل سے قریب رہنے کے تو فائیدے بھی دیکھ
مفلس غریب بیوہ کے تو مسئلے بھی دیکھ
قدرت نے زر دیا تجھے تو اُسے بھی دیکھ
رحمت اُتر کے آئے گی قدموں میں خود ترے
اک با ر لو لگا کے خدا سے ارے بھی دیکھ
اس کے رخ و جمال کی تشریح کر دی آج
اے شوق دید پڑھ کے مرے ترجمے بھی دیکھ
غیروں کے کیوں فراق میں رہتا ہے ہر گھڑی
گھر میں لگی ہے آگ ذرا سامنے بھی دیکھ
فضلِ خدا سے آج مری بات بن گئ
کتنے بلند ہو گئے یہ مرتبے بھی دیکھ
حاکم ہے ملک کا تو، سبھی سے تو پیار کر
میں بھی یہاں کا باسی ہوں اس واسطے بھی دیکھ
چاہت لگن خلوص سے کرتا ہوں شاعری
لائے ہیں اس کلام میں وہ قافیے بھی دیکھ
رو رو کے میں نے اشکوں کا دریا بہا دیا
’’آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ ، مجھے ڈوبتے بھی دیکھ ‘‘
خلقِ خدا پہ ڈھاتے تھے جو ظلم ہر گھڑی
چل کے سعیدؔ ان کے ذرا مقبرے بھی دیکھ
سعیدؔ قادری
صاحبگنج مظفرپور بہار
موبائل نمبر؛9262934249
ہے تجسس اس میں ہی انجام کا
گر نہ ہو شدت تو غم کس کام کا
زندگی میں اپنی جب ہیں شب ہی شب
کیا کروں آئینۂ ایام کا
خط میں لکھا کچھ نہ تھا، تھا داغ اک
طرز یہ بھی اس کے تھا پیغام کا
ہنستی آنکھوں سے چھلک جانا وہ اشک
کچھ تو مطلب ہوگا اس ابہام کا
عشق کو دنیا سمجھ پائی نہ جو
فن ہے یہ دیوانۂ گلفام کا
کامیابی کی طلب میں ڈوب کر
بھول بیٹھا نام ہی آرام کا
دیکھ اخبار و رسائل تو کبھی
نام کتنا ہے ترے بدنام کا
آہ زاری کر کے سینہ پیٹ کے
کیوں تماشہ میں کروں آلام کا
تیرا ہونے کی سزائیں کاٹ لیں
مستحق ہوں اب ترے انعام کا
ابتدائے عشق جس میں تھی ہوئی
ذائقہ کچھ اور تھا اس شام کا
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج، بارہ بنکی یوپی، انڈیا
اوقات اپنی آدھی ادھیلی میں تھی نہیں
بے نام سی لکیر ہتھیلی میں تھی نہیں
محبوب کے مزاج کا اندازہ کر سکے
اتنی تمیز اس کی سہیلی میں تھی نہیں
جتنی امیر خسرو کی ہر دل عزیز ہے
وہ بات مسخروں کی پہیلی میں تھی نہیں
چشمہ ،قلم ،کتاب ،صراحی کے ما سوا
ایسی کوئی بھی چیزحویلی میں تھی نہیں
جاناں! تمہارےجسم کی خوشبو ہےجس قدر
جوہی گلاب چمپا چنبیلی میں تھی نہیں
راقمؔ وہ جب سے ساتھ ہیں،پُردرد زیست ہے
پر سوز میری جان اکیلی میں تھی نہیں
عمران راقم
موبائل نمبر؛9163916117
دوست کم ہیں عدو زیادہ ہیں
زہن سے ہم مگر کشادہ ہیں
پا ہی لینگے وہ ایک دن منزل !
لوگ جو صاحبِ ارادہ ہیں
ہجر میں سر نہیں پٹکتے ہم
اور نہ صاحب رہینِ بادہ ہیں
اپنی مٹی سے جو جڑے ہیں درخت
آندھیوں میں بھی ایستادہ ہیں
ہم سے شکوہ ہے فیضؔ دلبر کو
ہم جو مصروف کچھ زیادہ ہیں
فیض الامین فیض
ضلع۔بردوان ،مغربی بنگال
موبائل نمبر؛8972769994
پھول اور کلیاں ملیں اُسکو بہار کی
دیکھ لی زینت ہم نے ویراں دیار کی
جس گھڑی کا تھا اُسے بے صبر ی سے انتظار
مختتم اب ہوگئیں وہ گھڑیاں انتظار کی
شادابیاں رنگوں کی یہاں چھائی ہیں ہر سُو
مٹ گئی فضا ہے یہاں سوگوار کی
کل تلک جو مالی پھول سے روٹھتے تھے
وہی لائے چمن میں اب شبنم انحصار کی
قادریؔ دیکھ تو ذرا چمن چمن میں
مسکرائی ہے کلی کلی افتخار کی
فاروق احمد قادری
کوٹی ڈوڈہ، جموں