وه بھی دن کیا پیارے تھے
جس دن تم سے هارے تھے
آگے اک هی منزل پر
بیٹھے صف میں سارے تھے
ننگے مفلس سڑکوں پر
جاں کو تن سے وارے تھے
آگے پیچھے ان میں کوئی
بےحس اور بے چارے تھے
عسرت، حالی اور افلاس
ناداری کے مارے تھے
گِن گِن راتیں کاٹی هیں
سر پر میرے تارے تھے
دنیا ہے اور مطلب بھی
ایسے میں ہم ہارے تھے
اُٹھ کے دیکھو یاورؔ جی
جگ کے ہم بنجارے تھے
یاور ؔحبیب ڈار
بٹہ کوٹ ہندوارہ ،کشمیر
موبائل نمبر؛6005929160
خزاں کی زد میں نظر آتا ہے چمن شاید
کہ پھر سے ہو رہا برباد یہ وطن شاید
وفا خلوص محبت و پیار ہمدردی
تمہارے شہر میں ان کا نہیں چلن شاید
بدل گئے ہیں بیانات سارے شب بھر میں
دیا گیا ہے گواہوں کو مال و دھن شاید
جھڑی کو دیکھ کے ساون کی ایسا لگتا ہے
کسی کی یاد میں روتا ہے یہ گگن شاید
جھلک رہا ہے تمہاری ادائے ناز سے جو
نہ ہوگا ایسا گلوں میں بھی بانکپن شاید
نہ دن میں چین نہ راتوں کو ہے سکوں پل بھر
تڑپ رہا ہے کسی کے لئے یہ من شاید
زمانہ ہو گیا محروم چاندنی سے رفیق ؔ
گھٹا نے ڈھانک دیا چاند کا بدن شاید
رفیق عثمانی
سابق آفس سپرانٹنڈنٹBSNL
آکولہ، مہاراشٹرا
خلوتِ غم اپنی کھلتی جائے گی
جیسے جیسے رات ڈھلتی جائے گی
بن سنور کر شہر میں نکلے ہو تم
لوگوں کی نیت بدلتی جائے گی
رہ نہیں سکتی جوانی برقرار
رفتہ رفتہ عمر ڈھلتی جائے گی
ناتوانی کے لئے کچھ وقت ہے
جسم سے طاقت نکلتی جائے گی
کاتبِ تقدیر پر سب چھوڑ دیں
فکر میںصحت بھی گلتی جائے گی
صبر بھی کچھ چیز ہے ایمان رکھ
ہر بلا سر آئی ٹلتی جائے گی
پار بحرِ بیکراں کر لوں گا میں
زندگی کی ناؤ چلتی جائے گی
چا ہتا ہوں ساتھ میرے تم رہو
کچھ طبیعت بھی بہلتی جائے گی
زندہ دل کے پاس بیٹھے ہو غیاثؔ
بات مطلب کی نکلتی جائے گی
غیاثؔ انور شہودی
ہوگلی، مغربی بنگال
موبائل نمبر؛9903760094
ہر حقیقت کو خواب میں نے کیا
جو کیا وہ جناب میں نے کیا
ان ہواؤں کا کوئی دوش نہیں
اس کلی کو خراب میں نے کیا
دھوپ میں اس کی جل رہا ہے بدن
جس کو خود آفتاب میں نے کیا
جو مری زندگی تھی ہاں اسی کی
زندگی کو عذاب میں نے کیا
وہ نگہ تو یوں پانی پانی تھی
اس نگہ کو شراب میں نے کیا
پہلے ان زلفوں سے کی اس نے رات
پھر وہ رُخِ ماہتاب میں نے کیا
دے کے اپنے لبوں سے شوق کے رنگ
ان لبوں کو گلاب میں نے کیا
مجھی سے نکلا ہے غموں کا ربط
جب غموں کا حساب میں نے کیا
اس نے بے بحر سے دیئے تھے غم
ان غموں کو کتاب میں نے کیا
اتنا مت اُچھلو اپنے مسند پر
تم کو تو کامیاب میں نے کیا
کیا گلہ اس مہک رو سے کروں میں
جس کا خود انتخاب میں نے کیا
جو کِیا تھا شروع میں نے خود
بند وہ آج باب میں نے کیا
میر شہریارؔ
اننت ناگ، کشمیر
مجھے ہے عشق تم سے میری آنکھوں میں وفا دیکھو
ذرا اب غور سے چہرے پہ آنسوئوں میں وفا دیکھو
یہ جو دھیمی صدا تم سن رہے ہو میں نہیں ہوں یہ
مرا دل رو رہا ہے اِن ہی چیخوں میں وفا دیکھو
مری آنکھیں، مری سانسیں، مری دھڑکن سبھی دیکھو
مرے تحفے ہیں جو پھولوں کے پھولوں میں وفا دیکھو
یہ کیسے سن رہی ہو تم عذابِ عشق غزلوں میں
یہاں آؤ مرے دل کی صداؤں میں وفا دیکھو
ہمیں کتنی کشش تیری محبت کی خودی جانو
کبھی میری جگہ اپنی اداؤں میں وفا دیکھو
اگر تم کو بھی اپنا دیکھنا ہے مخلصِ عاشق
جھجک بن آ کے اس شاداںؔ کی سانسوں میں وفا دیکھو
شاداں رفیق ؔ
بارہمولہ کشمیر
[email protected]
کہا نہ چھوڑ فکرِ یار کل کی دیکھتے ہیں کل
کوئی تو بولتا تھا اے عقیلؔ میرے ساتھ چل
کہانی میری سن کے پھر پتہ چلے کا ایک دن
تو میری زندگی کی آخری خوشی تھی بے بدل
ہوا وہ نقش کس طرح سے دل کی ہر فصیل پہ
وہ جس کیساتھ واقعی گزارے میں نے کچھ ہی پل
میں سوچتا ہوں مدتوں کے بعد بھی یہ دفعتاً
کہ جسے میری زندگی کے مسئلے ہوئے تھے حل
عقیبہ نام آخرش ادھورا ہی تو رہ گیا
پتنگِ وصل گر چراغِ عشق ہے تو تُو بھی جل
تیرا یہ روز مرہ ڈھونڈتا ہے تیری حاضری
کہاں ہے تو؟ نظر بھی آ سو اپنے آپ سے نکل
عقیل فاروق
بنہ بازار شوپیان،کشمیر
موبائل نمبر؛7006542670
سہانی صبح کی رنگت شباب جیسی ہے
میرے حبیب کی صورت گلاب جیسی ہے
ہزاروں سال سے اسکی ہی مدح کرتا ہوں
کہ اس کے باغ کی الفت کتاب جیسی ہے
نہیں ہو بھوال میں اس رفیق کا چہرا
کہ اس کہ پیار کی عادت سراب جیسی ہے
اسے ہوں دیکھتا جب بھی تو دل یہ کہتا ہے
کہ اس سے دور کی الفت عذاب جیسی ہے
جواس کو دیکھا کبھی خوؔا ب میں تو بولا یہ
تمہاری زلف کی نکہت شراب جیسی ہے
نعمت اللہ رضا خواؔ ب
موبائل نمبر؛9199258187
[email protected]
مشکل نہیں سمجھتے ہیں ہم اِسے اُس کی نوازش
رکھا ہے اُس نے ہمیں مبتلائے آزمائش
ہوتے ہیں وہ ہمکنار کامیابی سے ایک دن
کرتے ہیں مسلسل جو اِسکے واسطے کوشش
ہماری صحتمند زندگی کی ضامن رہے بس یہی
ہر صبح، ہر شام کریں ہم باقاعدہ ورزِش
حسین دورِ جوانی گزرا پیری کا کہیں کیا
دِل جسم و جاں ہمارے ہیں اب سرتا پا لخزش
جھونکنے پڑتے ہیں خواب اپنے اُن کی خاطر
اتنا آساں نہیں ہے کرنا اولاد کی پرورش
صورتؔ پوچھتا ہے کون کڑی محنت کو یہاں
تنگ نظر لوگ کرتے ہیں کامیابی کی ہی ستائش
صورت سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549
دو انوں کی بنائی نفرت ہوں میں
وفا سے نبھالو مجھے محبت ہوں میں
ایک سے چھین کر دوسرے سے بانٹ لیا
کیوں زمانے میں بنی تجارت ہوں میں
چلی جائونگی میں اگر پکارےکوئی
تڑپتے دلوں کی راحت ہوں میں
کسی کے آنسوں دیکھوں کہ دل کے ٹکڑے
سمیٹ لو مجھے اِک کفارت ہوں میں
لوگ ڈرتے ہیں مرے پاس آنے سے یہاں
بے وفائوں سے بنی بدنام شہرت ہوں میں
پھر کیوں نہ فتنے اور فساد کا عالم ہو
رشتوں سے نکالی گئی چاہت ہوں میں
میں محبت ہوں مجھے سوچ سمجھ کے تو پڑھ
اب ادب کے میدان کی شہرت ہوں میں
سکینہ اختر
کرشہ ہامہ ٹنگمرگ، بارہمولہ