کہہ رہا ہے باغباں سے عندلیبِ بیقرار
اِس گلستاں کو بتا کس نے بنایا خار زار
کون ہے جس نے ہوا کا رخ بدل کر رکھ دیا
کون ہے جس نے کیا اہل چمن کو زیرِ بار
یہ بتا کس چشمِ بد کی بد نگاہی کھا گئی
کر دیئے باغِ ارم کے لالہ و گل داغ دار
ہر کلی افسردہ ہر گل مبتلائے رنج و یاس
کس نے لُوٹے اس چمن کے جھومتے لیل و نہار
بلبلیں کیوں اس چمن کو دے گئیں داغِ فراق
کیوں بتا ہے چار سو آہ و بُکا آہ و پکار
کونپلیں کھلنے سے پہلے ہاے ! کیوں مُرجھا گئیں
کیوں شگوفے اب نہیں ہوتے چمن میں مشک بار
عندلیبانِ چمن پیہم کنند آہ و فُگاں
کیوں ہوا معصوم کلیوں کا گریباں تار تار
پوچھتے ارشادؔ سے ہیں دل دریدانِ چمن
کیا کریں کس کو سنائیں حالِ دل اور حالِ زار
ارشاد علی ارشاد
مہو،بانہال، جموں
موبائل نمبر؛9906205535
جنت سی چاندنی کی پناہوں میں آگئے
فرصت ملی تو آپ کی بانہوں میں آگئے
ان سے کہا جو آپ تو سب سے حسین ہیں
زہرہ جبیں کی ہم بھی نگاہوں میں آ گئے
خواب و خیال میں بھی جو آیا نہیں کبھی
اس گم شدہ حیات کی راہوں میں آگئے
ہم نے تو جان کی طرح رکھا سنبھال کر
پھر کس طرح حریف کی آہوں میں آگئے
تھوڑا بھی مسکرانے کی مہلت نہیں ہے اب
وہ درد زندگی کے کراہوں میں آگئے
اب اپنی لوٹتی ہے صدا تاج و تخت سے
لہجے فقیر کے کئی شاہوں میں آگئے
جس بات پر حصار سے باہر ہوئے تھے وہ
پھر فاصلے سمٹ کے نگاہوں میں آگئے
ان وحشتوں کے درمیاں راؔقم ہمیں لگا
دشت طلب کے چشم براہوں میں آگئے
عمران راقم ؔ
موبائل نمبر؛9163916117
اکٹھا جیسے ہی میں اس کے دام کر لوں گا
کہ یہ زمین کسی کے میں نام کر لوں گا
میں پھول پہلے تو اس کو سلام کر لوں گا
پھر اپنی تتلی سے پہلا کلام کر لوں گا
اسی کے نیچے جلاؤں گا آج میں دیپک
میں ایک سُوکھے شجر کو سلام کر لوں گا
کہ میرے پیروں کو دھوئیں گی ٹھنڈی یہ لہریں
سمندروں کے کنارے پہ شام کر لوں گا
یہ اپنے کاغذی گل مجھ کو یوں سجانے ہیں
کھنڈر میں صحرا میں حاصل مقام کر لوں گا
میں پہلے ٹھیک سے خود کو نہیں تھا پہچانا
میں خشک صحرا کا اب احترام کر لوں گا
رہے گا صرف یہ گمنام اب ہمیشہ، میں
مکاں سے اپنے الگ اپنا نام کر لوں گا
سفر جہاں سے کیا تھا کبھی شروع میں نے
خبر تھی کیا کہ وہیں اختتام کر لوں گا
اگر یہاں کا نہیں ہوگا تو وہاں کا پر
قبول میں بھی کہیں کا نظام کر لوں گا
ارون شرما صاحبابادی
پٹیل نگر ،غازی آباد اُتر پردیش
تمہارے شہر کا عجب دستور دیکھا ہے
نا کردہ گناہوں کا بھی قصور دیکھا ہے
دعا ہو کبھی خزاں رسیدہ نہ ہو چمن اپنا
گل و بلبل کو جب سے رنجور دیکھا ہے
ہے میرے چار سو یہ جلوہ گری کس کی
ذرے ذرے میں بس تیرا ظہور دیکھا ہے
ٹمٹمانے لگا جب سے میرے مقدر کا ستارہ
دوست و احباب کو خود سے بہت دور دیکھا ہے
زمین سے فلک تک ہے ا ناالحق کی صدائیں
کبھی سو لی پہ لٹکتے ہوئے منصور دیکھا ہے
اپنی پہچان کی خاطر یہ د نیا بنائی ہے تُونے
تجھ کو پرد وں میں سدا یوں مستور دیکھا ہے
بچ کے رہنا تم ظاہر پرست دنیا والوں سے
سر سے پائوں تلک ان کو بڑا مغرور دیکھا ہے
اس کی چشم کرم کے مشتاق ؔہم بھی تو ٹھہرے
جس کو میں نے علیم ُ بِذَات ِ الصدُور دیکھا ہے
خوشنویس میر مشتاق
ایسو ، اننت ناگ کشمیر
موبائل نمبر؛9797852916
درپن درپن ڈھونڈ رہا ہے بھولی بسری صورت اپنی
کچھ دیوانے کو یاد نہیں کیسی تھی کیا تھی حالت اپنی
جب سے میرے نین ملے نیلی نینو والی دیوی سے
بدلے بدلے حال ہیں اپنے بدلی بدلی رنگت اپنی
کیا فائدہ ہے ایسے نہ تو تو رہتا ہے نہ میں میں رہتا ہوں
ایسی روکھی روکھی یاری سے بہتر ہے خلوت اپنی
سانجھ سویرے کیوں ہاتھوں میں تو بادل بادل پھرتا ہے
گھر کی حالت دیکھ ذرا گرتی ہے شبنم سے چھت اپنی
یہ بازارِ دل ہے یہاں یہ کھوٹے سکے نہیں چلتے ہیں
چل اپنی دنیا دنیا والے جیب میں رکھ دولت اپنی
خود کو سستا سمجھ کر میں نے لایا تھا بازار میں خود کو
کوئی اپنا خریدار جب نہ پایا تو میں سمجھا قیمت اپنی
صدیوں صدیوں گھر نہیں آیا جہاں سے ابھی تک بھر نہیں پایا
کیسے آج اک مدت کے بعد پڑ گئی مجھ کو ضرورت اپنی
یہ سودا گھاٹے کا سودا ہے جانے دے دل جانے دے
سارا جیون مانگ رہی ہے کتنی مہنگی ہے حسرت اپنی
دل کے ویرانے میں ہم نے دل سے کی تھی درد کی کھیتی
موسموں نے ہی کروٹ بدلی رنگ کیا لاتی محنت اپنی
وحشت وحشت صحرا صحرا رستہ رستہ گرد کا پہرہ
ایسی دھندلی دھندلی فضا میں ماند پڑی ہے مورت اپنی
صدیاں ہوئے گھر اپنے گئے ہوئے وہ گلیاں رستے یاد نہیں ہیں
کس کو خبر ہے ہم سفرو اب کیسی ہے وہ جنت اپنی
جیون سارے ان پہ وارے بیٹھے ہیں خالی ہاتھ بچارے
دیوانوں کے انداز اپنے دیوانوں کی فطرت اپنی
اس سنسار میں آتے ہی لگ گئے ٹھکانے سدھ بدھ اپنے
جنگل جنگل بستی بستی کام آئی بس وحشت اپنی
تو میری رگ رگ میں بسا ہے میں تیری رگ رگ میں بسا ہوں
یہ فرقت و قربت کچھ بھی نہیں اپنے تئیں ہے شرارت اپنی
میر شہریارؔ
اننت ناگ کشمیر ،موبائل نمبر؛7780895105
ہر طرف رنگِ خزاں بسیط ویرانوں میں ہے
چھا گئی مُردنی سی پھر شبستانوں میں ہے
شاخِ نازک پر کبھی ہوتی تھی کوئیل نغمہ زن
سوزِ غم آمیز اِسکی آج کیوں تانوں میں ہے
کون وحشی آگیا پھر وادیٔ گلپوش میں
ماتمی ماحول رقصاں پھر پرستانوں میں ہے
آپ کی آمد سے بدلا شکر ہے رنگِ مزاج
رنگ و رونق عُود آئی پھر سے میخانوں میں ہے
کیوں نہ صورتؔ ہم بھی دیکھیں جاکے یہ رنگِ بہار
شاملِ فہرست اپنا نام دیوانوں میں ہے
صورتؔ سنگھ
رام بن جموں
موبائل نمبر؛9622304549
تیرا مجبور کردینامیرا مجبور ہو جانا
نگاہوں کو ستاتا ہے تیرا یوں دور ہو جانا
رہا تو کر دیانظروں کی ہے اس قید سے تم کو
ہے مشکل تیری یادوں کایہاں کافور ہوجانا
سمیٹے اپنی فرقت کو ہیں بیٹھے پھر بھی جانے کیوں
ذرا اچھا نہیں لگتا تیرا مغرور ہوجانا
جنازہ میرے ارمانوں کا تیرے پاس سے گذرا
عجب کیا ہے سماں تیرا یہاں مسرور ہو جانا
نوازیش غم کی ہیں، بے ادب تو نہیں تھے
کچھ ایسا کرو محفل تو ؔ پھر بے قصور ہو جانا
محفلؔ مظفر
پلہالن پٹن بارہمولہ ،کشمیر
ای میل؛[email protected]