تیرے دربار میں آیا ہوں مجھے اپنا لے
ساری دنیا کا ستایا ہوں مجھے اپنا لے
در بدر اپنی تکانوں کو ٹھکانہ چاہئے
ٹھوکریں اتنی جو کھایا ہوں مجھے اپنا لے
لمس قربت کا ملے پھرسے وہ قامت پاؤں
ہجر میں خود کا گھٹایا ہوں مجھے اپنا لے
اپنی رفتار سے بچھڑا ہوں کہاں دشت جنوں
رات کی آنکھ میں سایا ہوں مجھے اپنا لے
تو نے یہ شرط جو رکھی تھی کہ کھو کر ملنا
ڈھونڈ کر خود کو سو لایا ہوں مجھے اپنا لے
تیرے گاؤں میں وہی مٹی کی خوشبو سی ہے
شہر سا ایک بسایا ہوں مجھے اپنا لے
درد کی آخری دہلیز پہ ٹھہرا شیداؔ
اشک سے تازہ نہایا ہوں مجھے اپنا لے
علی شیدا ؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد، کشمیر
موبائل نمبر؛9419045087
غم ہی گر جاگیر ہے تو کیا ہوا
دل اگر دل گیر ہے تو کیا ہوا
رات ظلمت گیر ہے تو کیا ہوا
مؤجبِ تزویر ہے تو کیا ہوا
رقص کرنے کا جنوں ہے خون میں
پاؤں میں زنجیر ہے تو کیا ہوا
دم کہاں سے لائے گا میرا عدُو
ہاتھ میں شمشیر ہے تو کیا ہوا
جانتے ہیں ہم بھی بچنے کے ہنر
آگ دامن گیر ہے تو کیا ہوا
بوئے گُل سے لوگ ہیں نا آشنا
خار کی توقیر ہے تو کیا ہوا
گوہرِؔ نایاب ہوں میں شہر میں
کم اگر تشہیر ہے تو کیا ہوا
گوہر ؔبانہالی
بانہال جموں
موبائل نمبر؛9906171211
کیا خبر تھی زندگی بھی مسئلہ ہو جائے گی
پُر خطر پُر خار لمبا راستہ ہو جائے گی
دل لگی بن جائے گی دل کی لگی پھر ایک دن
اور قربت حد سے بڑھ کر فاصلہ ہو جائے گی
زندگی یہ پہلے پہلے ناز اُٹھائے گی بہت
اور پھر یہ حادثوں کا سلسلہ ہو جائے گی
جنم دے گی نت نئے فتنوں کو پیہم اور پھر
’’ صبحدم یہ رات کتنی پارسا ہو جائے گی ‘‘
آج میری زندگی پر ہنسنے والو! دیکھنا
ایک دن یہ میری ہستی کیا سے کیا ہو جائیگی
سنتے ہی اشعار میرے اُٹھ گئے وہ بزم سے
کیا پتہ تھا کہ غزل بھی تبصرہ ہو جائے گی
ڈوبنے والا خدا کو جب پکارے گا رفیق ؔ
دیکھ لینا موجِ طوفاں نا خدا ہو جائے گی
رفیق عثمانی
سابق آفس سپر انٹنڈنٹ
BSNL آکولہ ، مہاراشٹرا
دلوں پہ زینہ بہ زینہ ہیں چڑھنے والے لوگ
نمازِ عشق عقیدت سے پڑھنے والے لوگ
ملے ہیں پھول کی مانند ہم کو دنیا میں
تمہارے پیراہنِ دل پہ کڑھنے والے لوگ
کسی سے نیند میں سچ بول دیں تو خوابوں میں
صلیب و دار پہ چڑھتے ہیں چڑھنے والے لوگ
کہاں ہیں وقت کی اب چاک پر کھلونوں سے
خود اپنے آپ کو چن چن کے گڑھنے والے لوگ
ملے ہیں صرف ہمیں جنگ کی کتابوں میں
صفوں کو چیر کے کچھ دور بڑھنے والے لوگ
ہمارے حلقۂ احباب میں ہمارے لئے
ہیں ایک بات میں سو بات گڑھنے والے لوگ
اسی طرح کے تھے بالکل کسی زمانے میں
پیمبروں پہ بھی الزام مڑھنے والے لوگ
سنا ہے درد کی لذت کو بھی سمجھتے ہیں
جنابِ میرؔ کو مصداقؔ پڑھنے والے لوگ
مصداقؔ اعظمی
جوماں، پھولپور، اعظم گڑھ
موبائل نمبر؛9451431700
زندگی میں جو تیرا پیار نہیں
لمحہ وہ زیست میں شمار نہیں
اب جئیں تو جئیں بتا کیسے
دل کو تیرے بِنا قرار نہیں
ہیں خزاں کے بھی رستے راہوں میں
راہِ الفت فقط بہار نہیں
غم یہی ہے مرے لہو سے کوئی
دامنِ غیر داغ دار نہیں
آ زما کر زمانے کو یوں لگا
دل سا بھی کوئی غم گسار نہیں
کب ہمیں داغ بے وفا ئی دے
زندگی تیرا اعتبار نہیں
کیوں معینؔ اتنا دل جلاتے ہو
کون ہے یاں جو دل فگار نہیں
معین فخر معین ؔ
موبائل نمبر؛003443837244
ہم میں تم نہیں تم میں ہم نہیں
کوئی غم نہیں کوئی غم نہیں
جل گیا ہے دل آنکھ نم نہیں
کوئی غم نہیں کوئی غم نہیں
درد یہ کبھی ہوں گے کم نہیں
کوئی غم نہیں کوئی غم نہیں
کیا ہوا جو ہم دو با ہم نہیں
کوئی غم نہیں کوئی غم نہیں
زندگی ہے جینے کی عدم نہیں
کوئی غم نہیں کوئی غم نہیں
وہ بھی کرتے کم یہ ستم نہیں
کوئی غم نہیں کوئی غم نہیں
دور ہے وہ پر چشمِ نم نہیں
کوئی غم نہیں کوئی غم نہیں
میرے خواب ہی ہوتے کم نہیں
کوئی غم نہیں کوئی غم نہیں
جیب خالی دام و درم نہیں
کوئی غم نہیں کوئی غم نہیں
زِیست کے ہو تے کم اَلم نہیں
کوئی غم نہیں کوئی غم نہیں
تم میں ہم رہے ایک دم نہیں
کوئی غم نہیں کوئی غم نہیں
حسرتیں ہوئیں ختم، ہم نہیں
کوئی غم نہیں کوئی غم نہیں
کیسر خان قیس
ٹنگواری بالا ضلع بارہ مولہ، کشمیر
موبائل نمبر؛6006242157
ایک پل بھی نہیں قرار مجھے
مار ڈالے گا انتشار مجھے
راہِ الفت سے ہٹ گئی ہوں میں
راس آیا نہیں ہے پیار مجھے
خانۂ دل میں جس کو رکھا ہے
وہ ہی کہتا ہے دل کا بار مجھے
ہے وفا خون میں مرے شامل
بے وفا میں نہ کر شمار مجھے
اپنی نظروں میں رکھ بسائے ہمیں
اپنی نظروں سے مت اُتار مجھے
راز کی بات کیا بتاؤں اُسے
اب نہیں اُس پہ اعتبار مجھے
گلؔ ہوں گُل کی طرح مہکتی ہوں
مت سمجھ راستے کا خار مجھے
نیلوفر گلؔ فریدآبادی
ڈوڈہ جموں
کوئی جو دل دُکھائے صبر کرنا
زمانہ گر ستائے صبر کرنا
اُداسی کا کبھی جو کالا بادل
اگر گُلشن پہ چھائے صبر کرنا
کوئی اپنا اگر تجھ کو اکیلا
بھنور میں چھوڑ جائے صبر کرنا
کبھی جو یاد ماضی درد بن کر
تیرے دل کو رُولائے صبر کرنا
کہیں جو گھر کااپنا کوئی بھیدی
اگر لنکا ہی ڈھائے صبر کرنا
چراغ سازش میں جو گھر کا آکر
تیرا ہی گھر جلائے صبر کرنا
تمہارے سامنے گر کوئی آکر
وہ بھولا گیت گائے صبر کرنا
جو تجھ کو چھوڑ کر تیرے عدو کو
گلے اپنے لگائے صبر کرنا
جہاں کو تیرے ثاقبؔ چھوڑ کر وہ
الگ دنیا بسائے صبر کرنا
ثاقبؔ فہیم
شاداب کریوہ شوپیان ،کشمیر
موبائل نمبر؛8899134944
محبتوں کی کتاب میں جو لکھا ہوا ہے وہ شاعری ہے
یقین مانو نظر سے اوجھل جو ہوگیا ہے وہ شاعری ہے
میں پھول شبنم سے مل کے آیا بہت ستائے ہوئے ہیں یہ بھی
جو زخم کانٹوں سے کھائے سب نے مجھے پتہ ہے وہ شاعری ہے
مجھے خبر ہے مجھے پتہ ہے دعا سے بڑھ کے نہیں ہے کچھ بھی
مگر میں یہ بھی تو جانتا ہوں جو رتجگا ہے وہ شاعری ہے
بھٹک رہا ہوں میَں صحرا صحرا نہ جانے کس کی تلاش میں اب
جو مل گیا ہے نصیب میرا جو رہ گیا ہے وہ شاعری ہے
گلاب چمپا، چنبیلی، نرگس، ہیں موگرہ بھی چمن میں لیکن
وہ جس کی خوشبو سے سارا عالم مہک رہا ہے وہ شاعری ہے
قدم قدم پر جو ساتھ میرے چلا ہے اُس کو بتاؤں کیسے
سخن وروں کی جو ٹھوکروں میں پڑا ہوا ہے وہ شاعری ہے
مجھے نہ دعویٰ ہے شاعری کا نہ ہوں میں شاعر قسم خدا کی
جو میرؔ و غالبؔ، فرازؔ، حسرتؔ نے لکھ دیا ہے وہ شاعری ہے
وہ تھرتھراتے سے ہونٹ اُس کے غزال آنکھوں پہ زلفیں اس کی
حسین منظر کو دیکھ کر وہ جو لکھ رہا ہے وہ شاعری ہے
اُسے زمانے کا خوف کیا ہو کہ جس پہ اؔحمد کرم ہو اُس کا
بسا ہو جس کے خیال میں رب مجھے پتہ ہے وہ شاعری ہے
احمد اؔرسلان کشتواڑی
کشتواڑ، جموں
موبائل نمبر؛7006882029
نہیں ملا نصیب سے کچھ اس کا گلہ نہیں ہے
محبت کرنے والوں ملتا صلہ نہیں ہے
آنکھوں میں بسنے والا چھوڑ کر چلا گیا
کھوجتے کھوجتے عمر بیتی وہ ملا نہیں ہے
آگ حسرتوں کی بہت تھی جلانے کیلئے مجھے
آشیاں میرا بجلیوں سے کبھی جلا نہیں ہے
پت جڑ ہو یا بہار، خار ملے ہیں ہر سُو
ایسے ویرانے میں دل کا پھول کِھلا نہیں ہے
کل کا مجرم آج منصف حیران مت ہونا سعیدؔ
بازی گروں کا راز یہ اَب تک کھلا نہیں ہے
سعید احمد سعید
احمد نگر سرینگر
موبائل نمبر؛9906726380