میرے ہونٹوں کو اِک نغمگی بخش دی
آپ نے یہ عجب زندگی بخش دی
وہ جفا بھی کرے چُپ سا رہتا ہوںمیں
اُس نے اِک مستقل خاموشی بخش دی
عقل نے اُلجھنوں کے سِوا کیا دیا
حُسن نے دل کو دیوانگی بخش دی
اب زیادہ کرم کی توقع نہیں
اپنوں نے کتنی بے گانگی بخش دی
اب یہ رہتی ہیں ہر حال میں تربہ تر
میری آنکھوں کو اُس نے نمی بخش دی
زندگی میں نہیں اب اندھیرا کوئی
اُس کی یادوں نے اِک روشنی بخش دی
اے ہتاشؔ اُس سے ہم اور کیا مانگتے
اُس نے جب خوئے بادہ کشی بخش دی
پیارے ہتاشؔ
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607
جب بیاباں میں سُنی جامہ دری کی دستک
قیس کے لب پہ ہوئی خوب ہنسی کی دستک
ریگ ِساحل پہ لبِ خشک لئے بیٹھے ہیں
کون سنتا ہے یہاں تشنہ لبی کی دستک
کان سننے کو ترستے ہیں صدائیں کب سے
کاش اک پل ہو درِ دل پہ کسی کی دستک
کاش آجائے کوئی چاند کہیں سے چھت پر
وحشتِ ہجر ہے اور تیرہ شبی کی دستک
دل میں پھر یاد محبت کی پرانی آئی
غم کی برسات ہے گریہ گری کی دستک
ایک میرا ہی نہیں عشق کا مارا دل یہ
ہر طرف آج ہے آشفتہ سری کی دستک
آخرِ شب جو دعا مانگی برائے وصلت
صبح ہوتے ہی ہوئی ماہ پری کی دستک
لوگ ہجرت کے مسائل کو سمجھتے کب ہیں
شہرِاثبات میں ہوتی ہے نفی کی دستک
ب موبائل کا زمانہ ہے جناب راقمؔ
لوگ سب بھول گئے نامہ بری کی دستک
عمران راقم
موبائل نمبر؛9163916117
سہولتوں سے سفر اب تمام کر لوں گا
تمہارے ساتھ کہیں پر قیام کر لوں گا
میں پنچھیوں سے، صبا سے کلام کر لوں گا
کسی کے پیار کا حاصل پیام کر لوں گا
تمہاری آنکھوں کو اکثر سلام کر لوں گا
تمہارے حسن کا میں احترام کر لوں گا
مکاں نہیں تو یہیں پر قیام کر لوں گا
اسی درخت کے سائے میں شام کر لوں گا
کہ جیسے چاند کی ہوتی ہیں جھیل سے باتیں
اسی طرح سے میں ان سے کلام کر لوں گا
تمہارے ساتھ نہ ہوگا تو آس پاس کوئی
میں اپنے واسطے حاصل مقام کر لوں گا
ہوا میں دور تک خوشبو پھیل جائے گی
کہ اس طرح سے ادا کوئی نام کر لوں گا
کہ اس کے سامنے رکھ دوں گا پھر وہی تصویر
جہاں سے پورے سبھی انتقام کر لوں گا
ابھی تو پڑھنے میں مصروف ہوں کسی کے خط
ملا جو وقت تو دنیا کے کام کر لوں گا
گواہی اپنی میں دوں گا خلاف اپنے بھی
تمہارے جرم سبھی اپنے نام کر لوں گا
ارون شرما صاحب آبادی
پٹیل نگر ،غازی آباد اُتر پردیش
وہ اپنی جان کو خطرے میں کیسے ڈالے گا
میں ایک غم کا سمندر ہوں کیا کھنگالے گا
بیان میں نے مسیحا کے دے دیا ہے خلاف
میں جانتا ہوں مجھے اب وہ مار ڈالے گا
میں دور دور ہی رہتا ہوں اب رفیقوں سے
سنپولے کون بھلا آستیں میں پالے گا
میں ایک خار ہوں لیکن مجھے بھروسہ ہے
وہ اپنی سیج پہ اک دن مجھے سجالے گا
وہ ڈوب جائے گا ساحل پہ دیکھنا آ کر
ستم کی ناؤ جو طوفاں سے گر بچالے گا
یہ کام بھی کسی دشمن سے ہو نہیں سکتا
مرا رفیق ؔ ہی پگڑی میری اُچھالے گا
رفیق ؔعثمانی
سابق آفس سپر انٹنڈنٹBSNL
آکولہ مہاراشٹرا
میں نے الفت کی پر کوئی سازش نہ کی
تو نے مجھ تک کیوں آنے کی گردش نہ کی
کوئی آنکھوں میں تیرے سوا ہی نہیں
غم زدہ تھا میں تو نے کیوں بارش نہ کی
میں رہا جس طرح بھی رہا تیرا ہوں
گھر کسی کے بھی ہم نے رہائش نہ کی
اب نہیں ہے محبت کی خواہش مجھے
کیوں مجھے پانے کی تو نے کوشش نہ کی
رو ئے ہم تیری یادوں میں ہیں رات بھر
صبح غم کی کسی سے نمائش نہ کی
کیسر خان قیس
ٹنگواری بالا ضلع بارہمولہ، کشمیر
موبائل نمبر؛6006242157
لے لی اُجرت جو میں نے کمائی کی
غم نہیں اب ہے جگ ہنسائی کی
باتیں کرتے ہیں سب بھلائی کی
کاٹتے نبض ہیں کلائی کی
ہم کسی کے نہیں تمہارے سوا
جان رکھتے ہیں ہم فدائی کی
بس ترا لمس مجھکو کافی ہے
اب ضرورت نہیں رضائی کی
آ گئی جان اب مرے لب پر
اب ضرورت نہیں دوائی کی
تو ہی مالک ہے اب کرم کر دے
کوئی صورت نہیں رہائی کی
اے غریبی ترا یہ احساں ہے
شکل اب ہو گئی پرائی کی
جب صبا پاس سے گزرتی ہے
یاد آتی ہے بے وفائی کی
میرا شیوہ نہیں ہے یہ ہرگز
خود سرائی و خود نمائی کی
قدر ہوتی ہے اس کی محفل میں
جس کی عادت نہیں پڑھائی کی
کیا کہوں میں سعیدؔ اب تجھ سے
آئی ساعت جو ہے جدائی کی
سعید قادری
صاحبگنج مظفرپور بہار
موبائل نمبر؛ 9262934249
ادھورے سے فسانے کا کوئی دے کر تو حل جاؤو
میرے دل سے نکلتے ہو، نکلنا ہے، نکل جاؤ
کہانی بس یہیں تک تھی ختم شُد یہ محبت بھی
ابھی سامان تم باندھو نہیں بولوں گا کل جاؤ
وفا موضوع پہ یہ باشن گلے سے اب نہ اُترے گا
دکھا دو روپ اب اپنا ذرا ناگن کے بل جاؤ
بگاڑا کیا تمہارا ہے میری یہ جان اب بخشو
محبت اک بلا ہے تُو میرے سر سے تو ٹل جاؤ
ارے اس جلتی شمع کو پگھلنا ہے ،بجھنا ہے
اسی ماتم میں پروانے مٹ جاؤ ہاں جل جاؤ
یہاں سکے تو کھوٹے ہی گہر کے باؤ بکتے ہیں
بنو بازار کی زینت عجب کیا تم بھی چل جاؤ
قلم کو بیچ کر اپنے تجارت کر فلکؔ پیارے
کہ دولت ایک طاقت ہے سُدھر جاؤ سنبھل جاؤ
فلکؔ ریاض
حسینی کالونی چھتر گام ،کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109
دل تو کہتا ہے نقل ِ مکانی کروں
نام تیرے میں اپنی جوانی کروں
جب کوئی شعر تیری طبیعت کا ہو
بھیجنے کی تجھے مہربانی کروں
اُس کے بچپن کی تصویر مل جائے گر
یاد تازہ میں پھر سے پرُانی کروں
وہ تصور میں آئے تو پہلے ذرا
ذکر اُس کا میں اپنی زبانی کروں
خواب میں مجھ سے ملنے کا وعدہ تو کر
رات میں بھی تو اپنی سہانی کروں
بے جھجک خانہِ دل میں آجا کبھی
صدقِ دل سے تری میزبانی کروں
آرزو ہےوہ احمدؔملے بزم میں
اُس کے لہجے میں پیدا روانی کروں
احمد ؔ ارسلان کشتواڑی
کشتواڑ،جموں کشمیر
موبائل نمبر؛7006882029
میری عادت بدل نہیں سکتی
تیرے لہجے میں ڈھل نہیں سکتی
وقت نے اب بنا دیا پتھر
اب تو ہرگز پگھل نہیں سکتی
میں ہوں آزاد تیری دنیا سے
تری ٹھوکر میں پل نہیں سکتی
میں ہوں مصروف اور بہت مصروف
میں کسی سے بھی مل نہیں سکتی
میرا مالک مجھے کھلاتا ہے
تیرے ٹکڑوں پہ پل نہیں سکتی
ہر بلا گلؔ دعا سے ٹلتی ہے
کون کہتا ہے ٹل نہیں سکتی
نیلوفر گل فرید آبادی
ڈوڈہ۔ جموں و کشمیر
معلوم ہے کہ موسم رنگ بدل دیتا ہے
لوہے کی اکڑ کو بھی زنگ بدل دیتا ہے
دشمن کتنا بھی سنگ دل ہو اے بھائی
غازی پھر بھی حالتِ جنگ بدل دیتا ہے
نیت صاف ہو خدمت خلق کی جب بھی
اللہ بھی بندے کی اُمنگ بدل دیتا ہے
مثالیں ہیں بے شمار نفس پرستوں کی
موسیٰ ہو تو اللہ حالت سنگ بدل دیتا ہے
اونچائی پہ ہو جب بے لگام کوئی بھی
نہیں ملتا وہ جو منزلِ پتنگ بدلتا ہے
جب اَنا آ جائے مٹی سے بنے بشر میں
اک لمحے میں وہ اپنا ڈھنگ بدل دیتا ہے
سچی دنیا میں جینا ہو اگر میرے دوست
فطرتاً پھر ہر بالغ پلنگ بدل دیتا ہے
بدلے دل جب دنیا کی رغبت سے سہیلؔ
اللہ بھی سب سنگ رنگ بدل دیتاہے
سہیل احمد
[email protected]