بحرِ غم اک بے کراں ہے آج بھی
غم کدہ سارا جہاں ہے آج بھی
داغِ دل اس خانۂ ویران میں
باعثِ دردِ نہاں ہے آج بھی
گرمیٔ محشر کا اب کس کو خیال؟
زیرِ پا ریگِ تپاں ہے آج بھی
اک خمارِ غم ہے چھایا، اس لئے
زندگی بارِ گراں ہے آج بھی
جا بجا بکھرے ہیں اوراقِ حیات
بے خبر لیکن زماں ہے آج بھی
کس طرح ممکن کھلیں گل ہائے شوق
باغِ الفت میں خزاں ہے آج بھی
بول کچھ شادابؔ دشتِ یاس میں
بند کیوں آخر زباں ہے آج بھی
شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9797103435
آنسوؤں کے آنسوؤں کو بھی نچوڑا جائے گا
ہجر کا مفہوم جب کرفیو سے جوڑا جائے گا
میری حیرانی میں شامل خوف ہوگا خود بخود
توڑ کر آہن کو جب شیشے کو موڑا جائے گا
بے سبب کی جنگ لڑنے کے لئے اس بار بھی
وہ نہیں جائے گا لیکن اسکا گھوڑا جائے گا
طے یہی اب کے کیا ہے موسمِ سفاک نے
پیڑ سے پھل کو نہیں شاخوں کو توڑا جائے گا
ہوں گے گر دیر و حرم والے کسی دن روبر
قصہء تاریخ کا پھوڑا ہی پھوڑا جائے گا
جانتا ہوں قطرۂ مئے جامِ تشنہ کام میں
تیری مرضی کے مطابق تھوڑا تھوڑا جائے گا
آپ کو بیدار کرنے سے کہیں بہتر ہے یہ
قبر میں سویا ہوا مردہ جنجھوڑا جائے گا
میری جانب مسکرا کر میرے دل پر کب تلک
میرے ترکش کا ہی مجھ پر تیر چھوڑا جائے گا
زندہ رہنے کے لئے مصداقؔ کو معلوم ہے
موت کا بھی ایک دن پنجہ مروڑا جائے گا
مصداقؔ اعظمی
جوماں، پھولپور، اعظم گڑھ،یو پی
سیاہ دَشت میں ہم اِک دیا چاہتا ہوں
کشا کش کی دُھن میں جِیا چاہتا ہوں
دلِ ناتواں اب تو یوں جل رہا ہے
کہ بھٹی کا کُندن ہُوا چاہتا ہوں
جِگر تو جِگر ہے، دِگر اِک دِگرہے
خُدارا بتادے کہ کیا چاہتا ہوں
تُو حُسنِ سراپا، یہ عشقِ صبوری
جِگر تھام کے سامنا چاہتا ہوں
وہ جو درد برسوں سے پلتا رہا ہے
اُسی درد کی اب دَوا چاہتا ہوں
وہ جن کے مُقدر میں نالے ہیں آہیں
اِنہی کی زباں سے دُعا چاہتا ہوں
کہ جُرمِ رفو کی ہے عادت رہی میرؔ
بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں
ڈاکٹر میر حسام الدین
گاندربل کشمیر
موبائل نمبر؛9622729111
رک گئے یا ٹھہر گئے ہوں گے
کون جانے کدھر گئے ہوں گے
جن دِوانوں کو ڈھونڈتی ہے صبا
وہ سرِ شام مر گئے ہوں گے
اس نظر سے یوں چھلکی ہوگی شراب
سارے پیمانے بھر گئے ہوں گے
ہاتھ سے ہاتھ چھوٹا ہوگا پھر
خواب سارے بکھر گئے ہوں گے
وہ بھی شاید سنور گئی ہوگی
ہم بھی شاید سنور گئے ہوں گے
چند باتوں کو چند تہمتوں کو
لوگ افسانہ کر گئے ہوں گے
آج اس نے رکھا ہے ماتھے پہ ہاتھ
زخم تو سارے بھر گئے ہوں گے
چڑھ گئے ہوں گے شوق کی دیوار
پھر اترنے سے ڈر گئے ہوں گے
باتوں کے پاسدار تھے ہم سب
آخرش سب مکر گئے ہوں گے
گر گئی ہوگی زندگی کی چھت
کتنے معصوم مر گئے ہوں گے
وہ چمن سے گزر گئے ہوں گے
گل گریباں کتر گئے ہوں گے
اس خرابے میں آ کے آخر ہم
خاک سے خاک تر گئے ہوں گے
موت کی مہربانی سے پہلے
ہم کئی بار مر گئے ہوں گے
میر شہریار
اننت ناگ،کشمیرموبائل نمبر؛7780895105
ماضی کو بطورِ حال لکھ رہا ہوں
میں اپنے قیل وقال لکھ رہا ہوں
کس کس کو بتائیں کیا کیا بتائیں!
میں اپنا خوف ِ زوال لکھ رہا ہوں
رہے گی کب تلک یہ دنیا ہماری
گردش میں ماہ و سال لکھ رہا ہوں
وہ بن بلائے کسی مہماں کی مانند
جانے کس کا خیال لکھ رہا ہوں
حق وباطل میں گو امتیاز کیسا!
میں حرام کو حلال لکھ رہا ہوں
ہے شکیل صورت قتیل آنکھیں
میں اْس کو چشمِ غزال لکھ رہا ہوں
بن تیرے کیا ہے یہ زندگانی
جینا اپنا محال لکھ رہا ہوں
نہیں کوئی حُسن سیرت میں ایسا
میں جس کی مثال لکھ رہا ہوں
اسی اُمید پہ قائم ہے تیری دنیا مشتاقؔ
میں سایۂ ربِ ذوالجلال لکھ رہا ہوں
خوشنویس میر مشتاق
ایسو اننت ناگ کشمیر
موبائل نمبر؛ 9682642163
دل میں جو تیرے لہجے کی تلخی اُتر گئی
برسوں کی دوستی ذرا پل میں بِکھر گئی
ہم بھی تھے تیری آس لگائے ہوئے صنم
تیری نگاہ ناز مگر کب اُدھر گئی
غم تیری بے وفائی کا سہہ لیتا دل مگر
غم تو یہ ہے رقیبوں تلک یہ خبر گئی
کیسے نہ جاتی بات گلی کوچہ و بام تک
تھی بات تیرے حسن کی ہر اک نگر گئی
چلتا ہے حسن کا فسوں ایسے نظر نظر
جس کی گئی ر خِ حسیں پہ ہی نظر گئی
صدیوں نگارِ دل سے نہ جائے گی وہ گھڑی
وہ وصل کی گھڑی جو کہ پل میں گذر گئی
جاں سے گذر گئے وفا کر کے ہمی معین
اور داغ بے وفائی بھی اپنے ہی سر گئی
معین فخر معین ؔ
رودادِ سفر یہ ہے ہم جیسے غریبوں کی
ہر موڑ پہ کھائی ہے پھٹکار امیروں کی
جو درد نہاں دل میں ہیں یاد کی سوغاتیں
یہ درد جو ظاہر ہے سوغات رفیقوں کی
دل جان سے جب محنت کرتا ہے کوئی انساں
پھر کوئی حقیقت ہے ہاتھوں کی لکیروں کی
آزاد نہ ہونے کی کھائی ہے قسم ہم نے
زنجیر ہے اب ساتھی ہم جیسے اسیروں کی
یہ کیسا قبیلہ ہے اب عشق ہوا سب کو
حالت ہوئی ہے خستہ ہم جیسے مریضوں کی
شگفتہ کوثر
طالبہ، جی ڈی سی کوکرناگ، اننت ناگ
معلوم ہے کہ موسم رنگ بدل دیتا ہے
لوہے کی اکڑ کو بھی زنگ بدل دیتا ہے
دشمن کتنا بھی سنگ دل ہو اے بھائی
غازی پھر بھی حالت جنگ بدل دیتا ہے
نیت صاف ہو خدمتِ خلق کی جب بھی
اللہ بھی بندے کی اُمنگ بدل دیتا ہے
مثالیں ہیں بے شمار نفس پرستوں کی
موسیٰ ہو تو اللہ حالت سنگ بدل دیتا ہے
اونچائی پہ ہو جب بے لگام کوئی بھی
نہیں ملتی وہ جو منزل پتنگ بدلتا ہے
جب آنا آ جائے مٹی سب بنے بشر میں
اک لمحے میں وہ اپنا ڈھنگ بدل دیتا ہے
سچی دنیا میں جینا ہو اگر میرے دوست
فطرتاً پھر ہر بالغ پلنگ بدل دیتا ہے
بدلے دل جب دنیا کی رغبت سے سہیل
اللہ بھی سب سنگ رنگ بدل دیتا ہے
سہیل احمد
[email protected]
وقت مہرباں ہورہاہے عمر کے ڈھلنے کے بعد
پاسباں نے دی صدا دنیا میری لُٹنے کے بعد
خود کو بچانے کا سبب موجود تھا پھر بھی یہاں
مل چکا مٹی میں ہوں طوفان کے تھمنے کے بعد
لمبی عمر کی دعا مجھ کو نہ دے اے چارہ گر
کون جیتا اور ہے دل کی دنیا جلنے کے بعد
وقت کو سمجھا جو یارو اس نے پائی زندگی
بات تو سمجھا مگر میں وقت کے کھونے کے بعد
گر گر کے ہی سنبھلنا یوں میرا مقدر تھا سعیدؔ
اُٹھ نہ سکا پھر نظر سے اپنی میں گرنے کے بعد
سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر، سرینگر،کشمیر
موبائل نمبر؛990676380
اہلیانِ اوڑی کی جانب سے شیری، بارہمولہ اور سرینگر کے باشندوں کو اظہارِ تشکر، جنہوں نے اس صورتحال میں اوڑی کے لوگوں کیلئے ہمدردی دکھائی
جب درد کی گھڑی میں، دل کو قرار بخشا
تم نے کرم کیا جو، اپنا دیار بخشا
اجڑے ہوئے نگر سے، جب ہم نکل پڑے تھے
آغوشِ مہرباں میں، تم نے حصار بخشا
ویران راستوں پر، جب آس ٹوٹتی تھی
امید کا تبسم، پھر ایک بار بخشا
بھائی بنے ہو بھائی، اس دورِ ناگہاں میں
یہ حوصلہ، یہ چاہت، یہ اعتبار بخشا
احسان مند ہیں ہم، ہر ایک مہرباں کے
جس نے بھی پیار سے یوں، دامنِ بہار بخشا
فیاضؔ، اہلیان اُوڑی، مشکور تا قیامت
تم نے اندھیروں میں، اک نورِ یار بخشا
فیاض ؔاحمد خواجہ
[email protected]