سوئے کہ جاگتے ہی رہے ہم تمام رات
پلکوں پہ فصلِ خواب جو تھی نم تمام رات
اُٹھتا رہا غبار کہیں پھیلتا دھواں
پہلو میں حادثات کے پیہم تمام رات
یہ شورِ شب گزیدہ کہیں اور کا ہی تھا
شامل سکوتِ ذات رہا کم تمام رات
کھڑکی سے جھانکتی تھیں دعاؤں کی ساعتیں
آنکھوں کے سامنے تھا پڑا غم تمام رات
کچھ اپنے ساتھ بچھڑے پڑاؤں کی دھول تھی
زخموں کے کچھ چراغ تھے مدھم تمام رات
کاندھوں سے ہجرتوں کا اُتر جائے گا سفر
کھل کر منائیں ہجر کا ماتم تمام رات
شیداؔ قیامِ درد عبادت ہے عشق میں
رکھا کریں نہ گھائو پہ مرہم تمام رات
علی شیداؔ
نجدون نی پورہ اننت ناگ،کشمیر
موبائل نمبر؛7889677765
یہ شاہین ہے جو مری جان صاحب
پرندوں کی دنیا کا ہے خان صاحب
حیاتِ سخنور کی بوسیدگی کا
نمونہ ہے غالبؔ کا دیوان صاحب
یہاں آئینے سے کہیں بڑھ کے خود پر
میں سو سو طرح سے ہوں حیران صاحب
مرے رتجگوں پر بھی ہیں مدتوں سے
بہت ماہ و انجم کے احسان صاحب
درِمیکدہ ہم پہ گر وا نہ ہوتا
کہاں ڈھونڈھتے اپنا ایمان صاحب
میں خود روک کر اپنی تقسیمِ جاں کو
خدا کی قسم ہوں پشیمان صاحب
سمندر کی منجھدھار میں کون اُلجھے
یہاں ساحلوں پر ہیں طوفان صاحب
قلم ضبط ہو یا زباں کاٹی جائے
ہے ظلِ الٰہی کا فرمان صاحب
جسے اپنی غزلوں میں جینا ہے دُکھ کو
کہاں سے وہ برتے گا رومان صاحب
مہکتا ہے مصداقؔ کانٹوں میں رہ کر
خدا جب تلک ہو نگہبان صاحب
مصداقؔ اعظمی
جوماں، پھولپور، اعظم گڑھ
جو نبھے اِقرار ہونا چاہئے
اِنسان کا کردار ہونا چاہئے
جس میں ہم سستائیں تپتی دھوپ میں
سایہ ء دیوار ہونا چاہئے
بات جو بھی رُوح کو تکلیف دے
اُس سے تو انکار ہونا چاہئے
رازِ دل ہم کر سکیں جس پر عیاں
کوئی تو غم خوار ہونا چاہئے
کیوں امیرِ شہر کے محتاج ہوں
اپنا اِک گھر بار ہونا چاہئے
جس میں روبینہؔ نہ کھوئے حق کوئی
ایسا کاروبار ہونا چاہئے
روبینہ میر
راجوری، جموں کشمیر
اگر دل میں تمہارے مہربانی ہو
تو چہرے پر بھی ظاہر کچھ نشانی ہو
مرے دل میں تری الفت رہے ہردم
مری تم خوبصورت سی کہانی ہو
کوئی بھی دکھ نہ ہو شامل مسّرت میں
لڑکپن جیسی ہی میری جوانی ہو
تری یادوں میں دل روتا رہے ہر دم
مرے اشکو میں دریا کی روانی ہو
اجازت ہو تو میں تم سے کہوں جاناں
سکوں بھی اور تم ہی زندگانی ہو
عجب دل کی لگی بھی ہے عجب میں بھی
تمہیں حسرت مری تم ہی جوانی ہو
کیسر خان قیس
ٹنگواری بالا ضلع بارہ مولہ
موبائل نمبر؛6006242157
دل شکستہ ہم نشیں ہے ان دنوں
اور پڑا گوشہ گزیں ہے ان دنوں
دھوپ میں چنوا دوں گا درد و الم
سایۂ گیسو مزیں ہے ان دنوں
نرگِسِ مستانہ ہے وہ مشق ناز
ہفت رنگ اور آبگیں ہے ان دنوں
کیوں دبیرِ عقل نے دکھلائی ہے
چرخ کج رو آخریں ہے ان دنوں
گردِشِ ایام تُو ہے خوش نصیب
تابہ معراجِ یقیں ہے ان دنوں
کیوں گُلِ نغمہ سناتے ہو مجھے
نغمہ آرا، درد گیں ہے ان دنوں
آشنائے محفلِ عیش و طرب
محو حیرت ہم قریں ہے ان دنوں
یاور حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ ،کشمیر
موبائل نمبر؛6005929160
خواب جنت کے دکھانے والے
ہم نہیں جھانسے میں آنے والے
کوئی کشتی بھی بنائی ہوتی
جا بہ جا دریا بنانے والے
جسم سے جان نکل جاتی ہے
مُڑ کے مت دیکھ یوں جانے والے
شعر آتے ہیں کہاں سے مت پوچھ
ہم نہیں راز بتانے والے
جو تھا بے رنگ کبھی اس نے بھی
سیکھے ہیں ڈھنگ زمانے والے
یہ تو صحرا ہے کوئی تُو نے کیا
سوچا تھا بستی بسانے والے
رائگانی کا گلہ کیا مجھ سے
پوچھا تھا مجھ کو بنانے والے
ایک دن فرش پہ رہ کے ذرا دیکھ
عرش سے باتیں سنانے والے
کس سے روٹھا ہوا ہے آج تو اور
ہیں کہاں تیرے منانے والے
کچھ سراغِ رہِ منزل تو چھوڑ
آخری شمع بجھانے والے
سوچ لے پہلے یہ آساں نہیں ہے
ہاتھ الفت کا بڑھانے والے
مجھ کو مرنے دے بچانے سے تُو
مر رہا ہوں میں بچانے والے
میں تھا تجھ تک ہی پہنچنے والا
نیند سے مجھ کو جگانے والے
غور سے دیکھ ہمیں آخری بار
ہم نہیں لوٹ کے آنے والے
پہلے دیوار کھڑی ہی کیوں کی
آج دیوار گرانے والے
جی نہیں لگتا نئے موسموں میں
لوٹ آ دوست پرانے والے
جس کی قسمت میں تھا تو اس سے پوچھ
مجھ کو اے مفت میں پانے والے
اے غزل سر اٹھا ہیں آج کہاں
وہ ترے سننے سنانے والے
میر شہریار
اننت ناگ کشمیر،موبائل نمبر؛7780895105
پہلے قدم پہ جس کے ٹھہرنا پڑا مجھے
ایسے مقام سے بھی گزرنا پڑا مجھے
کومل سے جب کٹھور کہ بننا پڑا مجھے
پیروں سے ایک پھول کچلنا پڑا مجھے
مذہب کی جب کتاب کو پڑھنا پڑا مجھے
تب دور اپنی عقل کو رکھنا پڑا مجھے
میں ایک بیل ہوں کہ سہارے کے واسطے
اک سوکھے پیڑ سے بھی لپٹنا پڑا مجھے
میرا بدن کھلونا تھا ان لوگوں کے لئے
اس خودکشی کے واسطے لڑنا پڑا مجھے
عریانی اپنی یاد مجھے آئی تب بہت
جس دن کوئی لباس پہننا پڑا مجھے
پتھر نہیں میں بن سکا اس پہلی جنگ میں
اک لاش کے قریب ٹھہرنا پڑا مجھے
مذہب کے ذکر پر کہ فقط جہلا سے ہی نہیں
کچھ عالموں کے ساتھ بھی لڑنا پڑا مجھے
ہتھیار تو اُٹھا لیا پر پھول اور کتاب
ان کو بھی احتیاط سے رکھنا پڑا مجھے
فورا ہی اپنی شکل کو میں کیسے دیکھتا
کچھ روز اپنے آپ سے چھپنا پڑا مجھے
ارون شرما صاحبابادی
پٹیل نگر ،غازی آباد اُتر پردیش
دنیائے زندگی میں وہ حالات نہیں ہیں
جو روبرو آنے پہ سوالات نہیں ہیں
اب اس فضا میں وہ نمی آتی کہاں نظر
بہتر بھی کہیں آج معاملات نہیں ہیں
جب تیز رفتاری میں سب بڑھنے لگے قدم
رشتوں میں آج کوئی ملاقات نہیں ہیں
مندر ہے یہ ہندو، وہ مسلمان ہے مسجد
بھگوان و خدا کے یہ حوالات نہیں ہیں
ہونٹوں پہ سفیدی لئے گالوں پہ وہ زردی
چہروں پہ آج کوئی طلسمات نہیں ہیں
آئینہ دیکھنے کا بھی تھا آج منتظر
شمسیؔ وہ ادائیں وہ دن و رات نہیں ہیں
شفیع الشمسیؔ
نیو ہوئٹس، ہمہامہ سرینگر
موبائل نمبر؛9541413537
یہ حادثہ مرے ساتھ کب اور کہاں ہوا
راہِ وفا پر چلتے چلتے میں بےوفا ہوا
جس سے بھی پوچھو گے تو یہی کہے گا
پیار کے شہر میں اس کا سر تھا کٹا ہوا
تو بات ایرے غیرے کی مت کر بس یہ بتا
مضبوط سب سے تھا وہی کیوں ملا بٹا ہوا
کتنی معصومیت سے میرا آشیانہ جلایا گیا
بچانے کے لئے ایک ہی کمبل تھا، وہی بھی پھٹا ہوا
اس نے ہر جگہ آشیانے تعمیر کروا لئے
لیکن میرا ایک ہی گھر تھا،وہ بھی لُٹا ہوا
کس کس کا اس پردیس میں گلہ کرے
جس نے بھی دل لگایایاں، اس کو پایا مٹا ہوا
سید مصطفیٰ احمد
حاجی باغ، بڈگام ، کشمیر