نعتِ شریف
نعت آقاؐ کی پڑھے گا تو کامیاب ہوگا
پھر پاس تیرے ہر عرضی کا جواب ہوگا
دیدار مصطفےؐ کا آنکھوں کو جب بھی ہوگا
وہ میری زندگی کا پھر انقلاب ہوگا
وہ پاس روزِ محشر جب تیرے ہوں گے سوچو
کیا حسن میرے آقاؐ کا لاجواب ہوگا
میری یہ آرزو ہے زلفیں آقاؐ کی دیکھوں
اللہ کب مکمل میرا یہ خواب ہوگا
مجھ کو یقین ہے اُن کے ہی پسینے سے تو
اے باغ باں مہکتا گو یا گلاب ہوگا
در پر میں تیرے ہوں بیٹھا مدتوں سے مجھ پر
تیری ہو اِک نظر روشن ماہتاب ہوگا
کیسر خان قیس
ٹنگواری بالا ضلع بارہ مولہ کشمیر
۔6006242157
نعتِ مقدس
حد سے پرے نہیں تو یہ مدحت ہے آپؐ کی
ہم عاصیوں پہ کتنی ہی رحمت ہے آپؐ کی
کیا رنگ لائی دیکھیے محنت ہے آپؐ کی
دنیا کے گوشے گوشے میں امت ہے آپؐ کی
کوڑا جو پھینکتی رہی روزانہ آپؐ پر
اس بوڑھی کے لیے بھی عیادت ہے آپؐ کی
مکہ کو فتح کر کے بھی بدلہ نہیں لیا
ان دشمنوں پہ اب بھی عنایت ہے اپ کی
مذہب کی اور ذات کی تفریق کچھ نہیں
مظلوم کے لیے ہی حمایت ہے آپؐ کی
سوزن میں دھاگے پڑ گئے ظلمت کے وقت بھی
اس درجہ نور سے بھری صورت ہے آپؐ کی
جیسے گلاب ہوتا ہے پھولوں کے درمیان
سب انبیاء میں ایسی ہی عظمت ہے آپؐ کی
ارون شرما صاحبابادی
پٹیل نگر ،غازی آباد اُتر پردیش
غــزلیــات
اس جہاں میں بے کسوں کے درد کو سمجھے گا کون
حق کی خاطر اُن کے حق میں آج پھر بولے گا کون
اشک بن کر خواب آنکھوں سے گریں گے جس گھڑی
بن کے ہمدردی کا پیکر ہاتھ سے پونچھے گا کون
ظلم کے بازار میں سچ بولنا مشکل ہوا
ایسی حالت میں ستم کو روکنے اٹھے گا کون
ہر طرف انصاف کا ہے خون ہوتا جا رہا
بے کفن لاشوں کی جانب اب بھلا دیکھے گا کون
ہر قدم پر بے بسی اور بے کسی کا شور ہے
شورہے زندوں کا یا مردوں کا یہ سوچے گا کون
گاؤں ہے ویران سارا رو رہی ہے یہ فضا
یہ زمیں بنجر ہوئی ہے کس طرح،پوچھے گا کون
خواب تھے جو گاؤں کے، سب خاک میں گُم ہو گئے
اب بھلا ویراں ہوئی چوپال پر بیٹھے گا کون
گھومتے ہیں شہر میں تاجر سبھی خاروں کے بس
پھول نازک ہاتھ میں لے کر بھلا نکلے گا کون
گھر سے جو نکلے کمانے راستے میں کھو گئے
بھیڑ میں ان بھیڑیوں کی اُن کو اب ڈھونڈے گا کون
پرویز مانوس
روز لین آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
9419463487
تلوار جس نے پیٹھ پہ میری چلائی ہے
وہ شخص کوئی اور نہیں میرا بھائی ہے
ڈرتا ہوں اس پہ قہرِ خدا نہ برس پڑے
اس میں بڑا غرور بہت خود نمائی ہے
آنکھوں میں ہے یہ کیسی نمی پوچھتے ہیں لوگ
کیسے بتائیں ہم کہ تیری یاد آئی ہے
پہنچے گی دھیرے دھیرے یہ تیرے بھی گھر تلک
میرے مکاں میں آگ جو تونے لگائی ہے
جب بھی مصیبتوں سے مرا سامنا ہوا
ہر بار مری ماں کی دعا کام آئی ہے
کرتے نہیں ہیں بچے بزرگوں کا احترام
تعلیم کس طرح کی ہے کیسی پڑھائی ہے
کیسے رکھوں میں بیر پڑوسی سے اے رفیق
اس کے شجر کی چھاؤں مرے گھر پہ چھائی ہے
رفیقؔؔ عثمانی ۔۔ آکولہ مہاراشٹررا
Rtd. Office Supdt. BSNL
Akola Maharashtra
طلوع کبھی تو میری قسمت کا آفتاب ہوگا
روشن تاریکیوں میں کبھی تو ماہتاب ہوگا
ہاتھوں کی لکیریں میرے ساتھ گرچہ نہیں
شروع اک دن اس زندگی میں نیا باب ہوگا
پنہاں چلمن میں ابھی تک روئے یار ہے دل
دیدارِ دلبر سے نہ جانے کب تو سیراب ہوگا
تپش آموز خونِ رواں آج میرے دل میں ہے
کہیں گوشہ تنہائی میں چھڑا مضراب ہوگا
ستارہ میرے نصیب کا گو محو گردش ہے
نہ معلوم اویس کب پورا میرا خواب ہوگا
اویس ابن بشیر قادری
اقبال کالونی، شالہ پورہ،
آلوچہ باغ، سرینگر، کشمیر
چراغ
کچھ خاص نہیں پھر بھی خاص ہوں
ہر کوئی پانے کی کوشش کرتا ہے
حیران ہوں جو بھی پتا ہے وہی
میں چراغ بنن جاتا ہوں
دور کہیں جاتا ہوں
هزار اس اک چمک کی
تلاش میں مجھے پانے
نکل پڑتے ہیں
پھر بھی کہتا ہوں کچھ خاص نہیں
پھر بھی خاص ہوں
پھر میں چراغ کہتا ہوں
هر کسی کے نصیب میں
میں چراغ بنا نہیں
جو مجھے جی جان سے
پانے نکلتے ہیں
وہیں میں چراغ بن جاتا ہوں
کیسا ہے قدرت کا کمال
سب کچھ انسان کے پاس ہی رکھا ہے
پھر بھی باہر تلاش کرتے پھرتے ہیں
پھر بھی کہتا ہوں کچھ خاص نہیں
پھر بھی خاص ہوں
رابِندر سنگھ
کرناہ ٹنگڈار کپوارہ کشمیر
7051242813
غزل
رات دِن دل یہ سوچتا کیا ہے
میری تقدیر میں لکھا کیا ہے
کیا کہوں چند گہرے زخموں کے
زندگی میں مُجھے ملا کیا ہے
میری خاطر ہے کیوں پریشانی
میں ہوں دیوانہ اِک میرا کیا ہے
بدگماں آپ کب تھے یُوں پہلے
مُجھ سے آخر ہوئی خطا کیا ہے
کوئی اس میں نہیں تمنا اب
اس دلِ زار میں بچا کیا ہے
اُس کی آنکھیں بتارہی ہیں صاف
راز کوئی بھی اب چھپا کیا ہے
دِل پہ ہر اِک ستم سہا ہے ہتاشؔ
سوچتا ہوں میں رہ گیا کیا ہے
پیارے ہتاشؔ
جانی پور جموں
8493853607
مسجد کا پیغام
روزہ دارو اب مجھے تنہا نہیں کرنا
میرے پیارو اب مجھے تنہا نہیں کرنا
میں تو مسجد ہوں خدا کی ہو چکا رمضان
ایک ماہ تو سب رہے ہو تم میرے مہمان
کیسا جذبہ کیسی رونق واہ تمہاری شان
ولولہ ایسا کہ ہے شیطان پریشان
غم گسارو اب مجھے تنہا نہیں کرنا
روزہ دارو اب مجھے تنہا نہیں کرنا
ماہ گیارہ بھی عبادت کیجیے گا جی
عزم و ہمت کی قیادت کیجئے گا جی
اور محنت اور ریاضت کیجئے گا جی
دل کو اپنے پھر تراوت کیجئے گا جی
ماہ پارو اب مجھے تنہا نہیں کرنا
روزہ دارو اب مجھے تنہا نہیں کرنا
وقت ِء سحری وہ تلاوت اور عبادت واہ
رات کو جگنے کی میٹھی سی مشقت و اہ
اپنے ایماں سے عقیدت اور محبت واہ
نفس پہ قابو مکمل اور نفاست واہ
چاند تارو اب مجھے تنہا نہیں کرنا
روزہ دارو اب مجھے تنہا نہیں کرنا
سال بھر کی اب عبادت کا کرو اعلان
اپنے مالک سے محبت کا کرو اعلان
پاک پنجتن سے رفاقت کا کرو اعلان
راہ ِء حق میں اب سخاوت کا کرو اعلان
میرے یارو اب مجھے تنہا نہیں کرنا
روزہ دارو اب مجھے تنہا نہیں کرنا
فلکؔ ریاض
حسینی کالونی چھترگام کشمیر
فون۔۔۔6005513109
قطعات
’چراغ جلتا رہا ‘ روشنی بکھر تی رہی
’بساطِ فن‘ پہ نسیم ِ سَحر بھی چلتی رہی
یہ ’رات ڈھلنے کو ہے‘ اور یہ ’دل کا موسم ‘ ہے
فضا میں چالِ نسائم فضا بدلتی رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’چراغ جلتا رہا ‘اپنے انجمن کے لیۓ
’بساطِ فن‘ کے ہیں فن کار ہر چمن کے لیۓ
کہ’’رات ڈھلنے کو ہے‘ چھیڑ اک فسانہ بھئی
جواں ہے ’دل کا یہ موسم ‘ اِسی وطن کے لیۓ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں کی خاک پہ اپنا’چراغ جلتا رہا‘
’بساطِ فن ‘کی کسوٹی پہ بھی اُتر تا رہا
یہ’ رات ڈھلنے کو ہے‘ اور یہ ہو رہی ہے سَحر
کہ خاص ’دل کا یہ موسم ‘جوان ہوتا رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’دل کا موسم‘‘میں نغمگی ہے بہت
’رات ڈھلنے کو ہے ‘ نمی ہے بہت
سِحر ان کا’بساطِ فن‘ سے چلا
پھر سَحر تک ’چراغ جلتا رہا‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[email protected]
خطّا ب عالم شا دؔ، مغربی بنگال،رابطہ نمبر9339966186
اصولوں کی غلامی کا جس نے کیا کردارہے
بس وہی فکر وعمل کے دربار میں بیدار ہے
زہر دینے والے منصف قاتلوں میں ہیں شمار
پینے والامر کے بھی ہر دورمیں سردار ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ آئے کاغذ کے پھول گھر سجانے کیلئے
مجبور ہوں حالات سے لیکن میں جینے کیلئے
زندگی یوں ہی گزر جائیگی تری سعیدؔ
خون تری آنکھوں میں ہوگا کیابہانے کیلئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی خود اک دردِ انتہائی ہے
حالتِ ناتوانی میں جینا رسوائی
سو روگ لگ چکے ہیں مگر پھر بھی
مرگ جان لیتا نہیں تماشائی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت میرے پاس تھا جینا نہیں آیا
چھید اپنے جگر کا کبھی سینا نہیں آیا
بوند بوند کی خاطر ترستا رہا میں
سمندر سامنے تھا مگر پینا نہیں آیا
سید احمد سعید
احمد نگر سرینگر
9906726380
ماں
جسم میں جیسے جاں ہوتی ہے
وہ جو اپنی ماں ہوتی ہے
وفا کی خوشبو سے بھری ہوتی
محبت کا اک گلستاں ہوتی ہے
سدھ بدھ کھوئے یاد میں اُسکی
یہ مشکل کب آساں ہوتی ہے
لب ولہجہ میں رہیں خاموش
آنکھوں سے ندی رواں ہوتی ہے
قدم قدم پر ڈھال بننے
جہاں کوئی نہ ہو وہاں ہوتی ہے
اور مضبوط سہارے کی دیوار
سرپہ جیسے آسماں ہوتی ہے
جن کی نہیں ہیں مائیں سحرؔ
اب اُنکی عید کہاں ہوتی ہے
ثمینہؔ سحرمرزا
بڈھون، راجوری جموں
ماں کا عشق
عشق کا منبع کہلاتی ہے ماں
ان سے پوچھو جن کی نہیں ہوتی ہے ماں۔
جنم سے موت تک یہی فلسفہ ہے اس کا
کھبی مایوس نہ ہونا زندگی میں سکھاتی ہے ماں۔
ہر وقت یہی دعا اس کے خشک ہونٹوں پر ہے
دائمی خوشی ہر وقت مانگتی ہے ماں۔
پریشان رہتی ہے اپنے اولاد کی خاطر
حقیقی عشق کا جھنڈا لہراتی ہے ماں۔
ہر نماز میں کرتی ہے یہی دعا خدا سے
اس کی اولاد کو ملے کامیابی اپنے خدا کو منواتی ہے ماں۔
سکون ملتا ہے اس کی پرسکون گود میں
ایسے موتی ہار میں پروتی ہے ماں۔
بلال احمد صوفی
خوشی پورہ، ایچ ایم ٹی، سرینگر،کشمیر
6006012310