کہیں ایسی محبت بے نشاں ہے
یہاں ہر اک قدم پر امتحاں ہے
وہ ہو جائے گا ظاہر دیکھنا تم
کوئی بھی راز جو دل میں نہاں ہے
نظر میں دور تک ہیں اُس کے جلوے
نظر میں دور تک اک کہکشاں ہے
وہی لُوٹے گا اک دن کارواں کو
ستم ہے یہ وہ میرِ کارواں ہے
اُتر جائیں گے یہ دل میں یقیناً
اگر اشعار میں حُسنِ بیاں ہے
جو ہو شکوہ گلہ بہہ جائے اُس میں
محبت کا یہ دریا بیکراں ہے
ہتاشؔ اُس سے کہیں تفصیل سے کیا
اُسے ہر بات جب میری گراں ہے
پیارے ہتاش
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607
کب سے سمندروں کے کنارے کھڑا تھا میں
پھر بھی نہ جانے کس لئے پیاسا مرا تھا میں
کوےّ بھی میری لاش کو چُھو کر گزر گئے
ماری نہ ایک ٹھونگ بھی کتنا بُرا تھا میں
صحرا میں چلتی آندھیاں خاموش ہو گئیں
ویران آرزوؤں کا اک قافلہ تھا میں
شعلوں سے میرا واسطہ تھا ہی نہیں کبھی
پھر کس طرح کی آگ تھی جس میں جلا تھا میں
چاہا تھا روشنی کے سفر پر نکل پڑوں
اندھی گلی کے موڑ پر لیکن کھڑا تھا میں
خواہش کے دشت میں بھی رہا بے نشان سا
صحرا میں بن کے پھول وفا کا کِھلا تھا میں
سایہ بھی ساتھ چھوڑ کے جب دور جا چکا
تنہائیوں کے دیس کا اب نقش سا تھا میں
یادوں کے زخم دل پہ سجاتا رہا مگر
گزری ہوئی ہوا کا کوئی آئینہ تھا میں
گردش میں میراجسم کچھ ایسے بکھر گیا
مندر کا اپنے جیسے کہ ٹوٹا خدا تھا میں
پرویز مانوس
آ?زاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9419463487
زخم دل کا بھرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
دورِ غم گزرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
جو سمائے آنکھوں میں منظرِ رخِ دلبر
دل میں وہ اترنے میں دیر کتنی لگتی ہے
فصل گل کے رہنے تک ہے شباب پھولوں کا
ان کو تو بکھرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
شرط صرف اتنی ہو آئینہ مقابل ہو
حسن کو سنورنے میں دیر کتنی لگتی ہے
کام جو بدی کے ہیں لوگ جلد کرتے ہیں
نیک عزم کرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
یہ سیاسی رہبر ہیں ان پہ مت یقیں کرنا
ان کو تو مُکرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
وقت سے ثمرؔ پہلے موت آ نہیں سکتی
خوف کھا کے مرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
سمیع احمد ثمرؔ
طالب علم ( ایم اے اردو)
شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی نئی دہلی
انہیں اپنی بھی تھوڑی سی خبر ہو
یہ کیا دن رات مجھ پر ہی نظر ہو
سنانی ہے ہمیں روداد اپنی
کہانی آج تیری مختصر ہو
بہت دشوار ہے یہ کوہ پیما
جو تنہا شہرِ یاراں میں سفر ہو
چِھڑے جب بزم میں قصہ وفا کا
سوا میرے نہ کوئی بھی اُدھر ہو
محبت شرطیہ مل جائے نازاؔں
گلہ شکوہ زباں پر نہ اگر ہو
جبیں نازاؔں
لکشمی ، نئی دہلی
[email protected]
دل یہ دستک دے رہا ہے چل وہاں پہ چل کے دیکھیں
خود کو پروانہ بنا کر آو ہم بھی جل کے دیکھیں
ہر طرف دیکھا جنہیں نظروں سے اوجھل وہ رہے ہیں
گر نظر میں ہے نہیں تو اپنی آنکھیں مل کے دیکھیں
رین ساری آفتِ جاں میری صورت ہو گئی ہے
شهرِ دل سے آج یارو آو ہم بھی مِل کے دیکھیں
وادئ مجنون میں ہے شمع سحری پھر فروزاں
چرخ اطلس کے کناروں کو خدا ہم ذل کے دیکھیں
اک عجب سی بے قراری آتشِ ہائے ثلاثہ
نالہ ہائے سحر گاهی میں انہیں آب ثل کے دیکھیں
زندگی نے اک کشش کی جانبِ منزل چلا ہوں
نرگھسِ مستانہ کو آئو چلو ہم چل کے دیکھیں
دین و دنیا کی ہوس کے ہم شکاری ہو گئے ہیں
چل چلو یاور کہ اب دور اس سے چل کے دیکھیں
یاور حبیب ڈار
بٹہ کوٹ ہندوارہ ،کشمیر
موبائل نمبر؛6005929160
یہاں زندگی کے ہر موڑ پر چہروں پر چہرے ہیں
ملی ہے اتنی آزادی کہ پہروں پہ پہرے ہیں
روشنی کی کرن اس طرح چار سو پھیلی ہے
اندھیروں کے نہ تھمنے اور نہ ہٹنے والے ڈھیرے ہیں
دن کا سواگت موت کی چیخوں سے ہی ہوتا
ارے نادان! ہمارے حکمرانوں کے کان تو بہرے ہیں
سجائے جاتے تھے کبھی ہمارے یہاں سحرا بھی
وہ سر ہی کاٹ دیئے گئے اور زخم بھی گہرے ہیں
ہمارے پیروں میں دیکھو نہیں زنجیر ہے کوئی
تیری ہی دید کی خاطر تو ہم یہاں پہ ٹھہرے ہیں
سید مصطفیٰ احمد
حاجی باغ، بڈگام ، کشمیر
موبائل نمبر؛7006031540