تہہِ زمیں کی خموشی سمیں سُنائے ذرا
کوئی تو سر پہ یہاں آسماں اُٹھائے ذرا
کئی دنوں سے مقید ہوں خواب خانوں میں
پلک پہ وار کرے راستہ سجائے ذرا
مسافتوں کے زمانے تمام ہو جائیں
مرے قریب ذرا اور ،اور آئے ذرا
اُداس رات هے کیسی رِدائے ہجر لئے
صدائے اَشک سے کہدو غزل سُنائے ذرا
حرف حرف هے ٹپکنا لہو نگاہوں کا
"غزل سمجھ کے مجھے کوئی گنگنائے ذرا"
سفیرِ خاک ہوا ہوں متاعِ گردِ سفر
کوئی تو چاک پہ لاکے مجھے بنائے ذرا
علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد،
موبائل نمبر؛9419045087
وہ شخص اپنی ذات میں گہرا بہت لگا
لہجہ اگرچہ سخت تھا سچا بہت لگا
یاروں نے یاسئیت کا کیا دائمی مریض
اس انتخاب میں ہمیں دھوکہ بہت لگا
اک انجمن کے رُوپ میں ملتا تو تھا مجھے
دیکھا قریب سے تو وہ تنہا بہت لگا
اس شہرِنامراد کی صورت عجیب ہے
ہرفرد اپنےآپ میں اُلجھا بہت لگا
تھا سحرایسا اُسکی شناسائی میں نہاں
"مغرور ہی سہی مجھے اچھا بہت لگا"
بیزار و بیقرار تھے بستی کے لوگ سب
یہ اور بات ہر کوئی ہنستا بہت لگا
یہ گلشنِ حیات بھی بسملؔ عجیب ہے
اس کا ہرایک پھل مجھے پھیکا بہت لگا
خورشیدبسملؔ
تھنہ منڈی ، راجوری
موبائل نمبر؛ 9622045323
اکتشافِ رمز ہوگا سینۂ افلاک میں
بالارادہ جب بپا ہوگی حرارت خاک میں
غیر ممکن ہے رسائی یاں مکاں کے بام تک
ہے تصوّر لامکاں کا قوّت اِدراک میں
پربتوں کی چوٹیوں پہ شان رکھتی بجلیاں
دیکھتی ہیں کب ہدف اپنا خس و خاشاک میں
شہرِ ویراں میں کسے حاصل حیاتِ جاوداں
موت کا ہر وقت رہتا ہے فرشتہ تاک میں
کیفیت میرے جنوں کی ارتقا پہ گامزن
اب نمایاں ہیں مسکنے کے نشاںپوشاک میں
چین کھویا، دل دیا، لُٹتے رہے تاعمر اب
اک قناعت رہ گئی باقی مریِ املاک میں
پیرہن خستہ، رفو گرہچکچائے گریہاں
کب رفو ممکن ہوا کوئی جگر کے چاک میں
ڈاکٹر مظفر منظور
اسلام آباد کشمیر،موبائل نمبر؛9469839393
اسی باعث یہ اپنی زندگی غم ہوتی جاتی ہے
محبت بندگی اور بندگی کم ہوتی جاتی ہے
سبب اس کشمکش کا اور کیا ہےزندگی تو ہے
مگر یہ کشمکش پھولوں پہ شبنم ہوتی جاتی ہے
نہ جانے تشنگی کم کیوں نہیں ہوتی محبت کی
محبت زندگی اور زندگی کم ہوتی جاتی ہے
سراپا درد بن کر زندگی کی ٹھان لیتی ہے
نکلتا ہے جبھی گوہر صدف نم ہوتی جاتی ہے
روشؔ اپنی جہا ں گیری مگر اسفل میں خاکی ہوں
گداگر چشم اس کے در پہ پُرنم ہوتی جاتی ہے
جہانگیر حسن روش ؔ
چھاترو کشتواڑ
ریسرچ اسکالر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
موبائل نمبر؛9596631123
یہ قریہ قریہ تاریکی، اُجلوں کی تمنّا کون کرے
یہ بستی بستی غافل ہے سوتوں کو جگایا کون کرے
میں محشر محشر مارا ہوں ، میں بستی بستی بنجارہ
جب کوئی گناہ سرزَد نہ ہوا جنّت سے نکالاکون کرے
وہ عِشق بھی کیا عِشق ہے جس عِشق میں کوئی درد نہ ہو
جب درد ہی عزیز بنے دردوں کا مداوا کون کرے
اس نے دیئے جو درد مجھے ، میں وابسط ان دردوں سے
جب ساتھ نہ دے بہاریں بھی کِھلنے کی تمناّ کون کرے
اس خانۂ دل پہ کیا بیتے جس دل پر تجلّی اُن کی ہو
جلنا ہی جب مقّدر ہے جلنے کی پروا کون کرے
جو باندھے رہے ہر وقت مجھے مشتاقؔ میں ہوں ان زلفوں کا
امید نہ ہو جب رہائی کی جینے کی تمنّا کون کرے
خوشنویس میر مشتاق
ایسو اننت ناگ
موبائل نمبر؛ 9797852916
اے دل ستاں پردے سے نکل کے آجا
ہے جو سینے میں سنگ اسکو پگھل کےآ جا
میں ان انگاروں پہ شوق سے چلونگا
تو بس ایک ہی قدم چل کے آجا
منزل تیری تقدیر پہ لکھی ہوئی ہے
تو نا اُمیدی کے دامن سے نکل کے آجا
روکا ہے تجھے سماج کی ان رسموں نے
تو رہبر سے ملنے پہہچان بدل کے آجا
اے شوریدہ تیرا بھی علاج ممکن ہے
تو پہلے خرد کی باتوں سے نکل کے آجا
اس خاکی جسم کی خواہش زیست نہ کر
تو بس عشق کی آگ میں جل کے آجا
راشدؔ نہ جا پھر سے جنوب کی گلیوں میں
دل اس خاکی جسم کو زراسنبھل کے آجا
راشدؔاشرف
کرالہ پورہ ، چاڈورہ،موبائل نمبر؛9622667105