موسم ہجر کی پہنائی نے کمال کیا
دشتِ دل کی شکیبائی نے کمال کیا
شمع جلی ہے قصرِ ہجر میں پہلی بار
اب کے عالم تنہائی نے کمال کیا
خود ہی خود کا جلوہ دیکھ رہا ہے وہ
مالکِ کُل کی یکتائی نے کمال کیا
کانچ کے در میں شگافِ دعا ہوتا ہی نہیں
دیکھو گبندِ مینائی نے کمال کیا
شعر پڑھا تو قاری رویا دیر تلک
میرے فن کی توانائی نے کمال کیا
دل ہی دل میں دل نے کھولا دل کا در
دریا دریا گہرائی نے کمال کیا
آنکھیں کھولیں من کی کلی نے بھی عادل ؔ
آخر لالہء صحرائی نے کمال کیا
اشرف عادل ؔ
الٰہی باغ سری نگر کشمیر
موبائل نمبر؛9906540315
مری ہستی میں فن بھرنے نہ دے گا
یہ بھوکا پیٹ کچھ کرنے نہ دے گا
میں ہر چوکھٹ پہ سجدہ کیسے کرلوں
وہ اپنے در پہ سر دھرنے نہ دے گا
لگاتا ہی رہے گا روز نشتر
وہ دل کے زخم کو بھرنے نہ دے گا
خدا کا خوف پیدا کر لو دل میں
وہ اس دنیا سے پھر ڈرنے نہ دے گا
فنا جب تک نہ ہوگی دنیا جاناں
قلم میرا تجھے مرنے نہ دے گا
ہمارا عہد حیوانات کو بھی
کسی کے کھیت میں چرنے نہ دے گا
لے، دیوانہ ترا کاندھوں پہ نکلا
ترے کوچے میں اب دھرنے نہ دے گا
تو اس ظالم کے چنگل میں پھنسا ہے
تجھے جینے تو کیا مرنے نہ دے گا
جتا کر گاہے گاہے مجھ سے نفرت
محبت سے وہ دل بھرنے نہ دے گا
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج، بارہ بنکی، اترپردیش
ملے ہیں راہ میں لیکن عذاب کی مانند
ہوا ملن بھی تو اِک موجِ آب کی مانند
شکستہ خواب نگاہوں میں لے کے چلتا ہوں
یہ خواب ہونے لگے ہیں سراب کی مانند
وہ تیز و تند سمندر میں پھیلتا ہی گیا
اُسے سکون ملا اضطراب کی مانند
وہ آگ ہو کہ ہوشبنم کوئی بھی فرق نہیں
میرا وجود ہے یارو گلاب کی مانند
رُخِ زمانہ پھرے گا ہماری سمت تو کیوں
ہمارا ضرب بھی ہوگا کتاب کی مانند
نہ عکسِ شرم ہے باقی نہ کوئی موجِ حیا
چلی ہیں شوخ ہوائیں شراب کی مانند
پُرانی راتوں کا ہر رنگ ہوگیا دُھندلا
تمام خواب ہوئے اب تو خواب کی مانند
نسیمؔ یہ بھی بہت ہے کہ اُس نے یاد کیا
کتابِ شوق ہے اک انتساب کی مانند
پروفیسر حمید نسیم رفیع آبادی
موبائل نمبر؛7006437393
پلکوں پہ ٹوٹے سپنے ایسے سجا رہا ہوں
ہر آدمی کو ہر دم اپنا بنا رہا ہوں
پتھر بنادیا ہے راہوں کا زندگی نے
کھا کھا کے ٹھوکر یں اب منزل پر جارہا ہوں
بڑھ کر نہ وقت سے ہے یہ زندگانی میری
تیرے لئے میں پھر بھی ہر پَل لُٹا رہا ہوں
زنجیر مجھ کو ڈالے ہے وقت کا یہ منصف
بازی گروں کے رازوں کو جوکھولتا رہا ہوں
کہتے ہیں بے مروت وہ لوگ مجھ کو سعیدؔ
دن رات نام جن کا میں الاپتا رہا ہوں
سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر سرینگر،موبائل نمبر؛9906726380
رب کے حکم سے آئے موت
پر گہرا زخم لگائے موت
اپنے پیاروں کو اک لمحے میں
دو کہیں لے جائے موت
جس جگہ کی لکھی ہوئی ہو
وہیں پر پہنچائے موت
پل دو پل کا سارا کھیل
پھرتا عمر، پھر کھائے موت
کٹھن ہوجائے زندگی کا سفر
کیا کیا رنگ دکھائے موت
بہانہ کچھ نہ کچھ ہو جائے
سحرؔ مگر وہی کہلائے موت
ثمینہ سحرؔ مرزا
بڈھون راجوری
میرے قاتل لہجے میں لگتے تو حسیں ہیں
فنکار ایسے ہیں کہ گویا ظرفِ تحسیں ہیں
رکھتے خیال ہیں میری ناکامیوں کا وہ
یہ لوگ میری بستی کے بھی کتنے زہیں ہیں
لگتا ہے جُڑا چاند سے ہے اُن کا کچھ رشتہ
یا دھوکے سے سمجھے ہیں خود کو ماہ جبیں ہیں
ہیں ہاتھ میرے کاپنتے کیا لکھوں میں اُن پر
میخانے میں گھر ہے بظاہر مسجد کے شوقیں ہیں
تخلیق سے تراشتے ہیں خود کو سلیمہؔ
دل میرا جلا کر وہ لگتے کتنے حزیں ہیں
سلیمہ ملک
درہال راجوری
آجاؤ ! دو پیار کی ڈوبتی کشتی کو کنارا
تنہا ہیں ہم، اب نہیں ہے کوئی سہارا
غم سے دم گھٹ رہا ہے میرا اب قسم سے
آخر کب تک غم سہے گا یہ دل بیچارا
دل تڑپتا ہے ادر دیتا ہے تمہیں صدائیں
ارے دن رات یہ کرتا ہے انتظار تمہارا
ہم نے تمہارے پیار میں خود کو مٹایا
اب دل کسی اور پہ نہ آئے گا دوبارہ
نور حسین
بالہامہ سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛8492808804
وہ بستی دے گیا وہ مکا ں کے بدلے
شہر دے گیا وہ ویراں کے بدلے
مشکور و ممنوں ہو ں میں مالی کا
پھول دے گیا ہے وہ گلداں کے بدلے
اُلفت کے گُل کھلے ہیں یہاں
شادابی دے گیا وہ خزاں کے بدلے
روشنی کے ہر سُو خوب نظارے ہیں
شمع دے گیا ہے وہ روشن داں کے بدلے
قادریؔ ملکیت جو تیری تھی
مل گئی تجھے آسماں کے بدلے
فاروق احمد قادری
کوٹی ڈوڈہ جموں و کشمیر