ہی اک انترا ہے آج کل جو عام چلتا ہے
کسی کا کام ٹھہرا ہے کسی کا نام چلتا ہے
ہمارے شہر میں اک کہکشاں ہے سرخ لفظوں کی
اسی سے خوں طلب افسانہ صبح و شام چلتا ہے
کوئی سکہ نہیں کھوٹا سیاست کی تجوری میں
کوئی سکہ نہیں سکے کا لیکن دام چلتا ہے
ہماری ڈائری محفوظ کرلو کام آئے گی
یہاں زندہ کفن میں اور مردہ عام چلتا ہے
نئی وحشت کے سائے دن دہاڑے گھوم پھرتے ہیں
کوئی آسیب پروردہ بصد آرام چلتا ہے
سفیرِ آدمیت جا گزیں ہے کنجِ خلوت میں
فقط نفرت کے میخانوں میں دورِ جام چلتا ہے
تمہاری شاعری میں حسنِ جاناں ہو کہاں شیدؔا
بھلا اس دور میں بھی عاشقی کا کام چلتا ہے !
علی شیدؔا
نجدون نیپورہ اسلام آباد
موبائل نمبر؛9419045087
سہمی سہمی ہے فضا تازہ ہوا کچھ بھی نہیں
بس گھٹن ہے اور گھٹن کے ماسوا کچھ بھی نہیں
کیسے نکلیں گے حصارِ ذات سے باہر یہاں
گرد کی دیوار ہے اور راستہ کچھ بھی نہیں
لڑنی ہے آخر لڑائی اب مجھے اپنے خلاف
جنگ میں میرے سوا تو ہے بچا کچھ بھی نہیں
یہ اُداسی پی چکی سب زندگی کی روشنی
آپ اب بھی کہہ رہے ہیں ’’کیا ہوا؟‘‘ کچھ بھی نہیں
آئے ہیں وہ کھیلنے اب مجھ سے بازی عشق کی
پاس میرے ہارنے کو جب رہا کچھ بھی نہیں
چہرہ کیوں پیلاپڑا ہے زرد پتّوں کی طرح
کیا کسی سے کچھ گلہ ہے ۔کیا کہا؟ کچھ بھی نہیں
مسئلہ ہے ان کا میرے حال پر ہنسنا میاں
ورنہ دل کا ٹوٹنا تو مسئلہ کچھ بھی نہیں
راہیؔ جس کو سرجھکا کے کرتی ہے جنّت سلام
اس جہاں میں ماں کی عظمت کے سوا کچھ بھی نہیں
عاشق راہی ؔ
اکنگام اسلام آباد
موبائل نمبر؛6005630105
دلنشین و خوبصورت خوبرو کوئی نہیں
بن تمہارے یار مثل رنگ و بو کوئی نہیں
اس طرح اوجھل میں اپنی ہی نگاہوں سے ہوا
آئینہ تو سامنے ہے روبرو کوئی نہیں
آئینہ خانے میں جاکر یاں وہاں دیکھا مگر
ساری شکلیں تیرے جیسی ہوبہو کوئی نہیں
میرا دل خاموشیوں نے سنگ سا بے جاں کیا
اب دلِ خستہ کی باقی آرزو کوئی نہیں
محفلِ عشاق ہے اور شمعٔ محفل پیا
سُن مرے دل یاں تمہاری آبرو کوئی نہیں
دھیرے دھیرے کہہ گئے سب الوداع شاہیؔ مجھے
اب سوا تنہائیوں کے چار سو کوئی نہیں
شاہیؔ شہباز
پلوامہ کشمیر،موبائل نمبر؛ 7889899025
دل کے جو ارماں ہیں سارے، انکو جلنے دو
ملنا آخر خاک میں ہے اب مجھ کو ملنے دو
زخم سہے ہیں سینے پر جو ہر صبح ہر شام
خوں آنکھوں سے بہتا ہے تو اُسکو بہنے دو
کشتی طوفاں سے ٹکرائی ساحل ناپایا
قسمت میں جوڈو بنا ہے تو بھنور میں ڈوبنے دو
میرے چاند سے اُسکا چہرہ کِھلا نہیں، اب تو
اسکو اپنی مانگ ستاروں سے ہی بھرنے دو
میرا اشتیاق تھا اُس سے اُلفت سدا رہے
افتراق ہے مجھ سے اُسکو گر تو ہونے دو
دل یہ اندوہ راتیں کب اور کیسے بسر ہونگی؟
ہونگی! دل رکھو تم پہلے سحر کو آنے دو
تنہائی، رسوائی، جدائی کیا کیا اور ملے؟
ملا ہے ہم کو درد ہے کتنا، اسکو سہنے دو
راشد کبھی آجائینگے تیرے حجرے میں وہ ضرور
دل ہے منتظر تو اسکو انتظار میں رہنے دو
راشد اشرف
کر الہ پورہ ، چاڈورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9622667105
دل کے جو ارماں ہیں سارے، انکو جلنے دو
ملنا آخر خاک میں ہے اب مجھ کو ملنے دو
زخم سہے ہیں سینے پر جو ہر صبح ہر شام
خوں آنکھوں سے بہتا ہے تو اُسکو بہنے دو
کشتی طوفاں سے ٹکرائی ساحل ناپایا
قسمت میں جوڈو بنا ہے تو بھنور میں ڈوبنے دو
میرے چاند سے اُسکا چہرہ کِھلا نہیں، اب تو
اسکو اپنی مانگ ستاروں سے ہی بھرنے دو
میرا اشتیاق تھا اُس سے اُلفت سدا رہے
افتراق ہے مجھ سے اُسکو گر تو ہونے دو
دل یہ اندوہ راتیں کب اور کیسے بسر ہونگی؟
ہونگی! دل رکھو تم پہلے سحر کو آنے دو
تنہائی، رسوائی، جدائی کیا کیا اور ملے؟
ملا ہے ہم کو درد ہے کتنا، اسکو سہنے دو
راشد کبھی آجائینگے تیرے حجرے میں وہ ضرور
دل ہے منتظر تو اسکو انتظار میں رہنے دو
راشد اشرف
کر الہ پورہ ، چاڈورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9622667105
تمہارا شوقِ جمال رہا بھی کیا
خیر اُسکا زوال رہا بھی کیا
بےحِس میں ہوا دیدارِ یار سے
بُلا کے کمال رہا بھی کیا
تُم ہی جَتاتے رہے ہو ہجر کو
یوں ہمارا وصال رہا بھی کیا
یونہی دورانِ وصل صبح آن پہنچی
رُخِ یار پر ملال رہا بھی کیا
عشرتِ آرزو کیوں نہیں ہے مجھے
یہ آرزو کا خیال رہا بھی کیا
زرد یہ چہرہ، پڑے کیوں تمہارا
اب اس پہ سوال رہا بھی کیا
شائقؔ اُسکی آمد پر چلا تو گیا
پھر گلہ فی الحال رہا بھی کیا
شائق فاروق وانٹ
بونجواہ، کشتواڑ،موبائل نمبر؛9682606807