کہیں بھی زندگی اپنی گزار سکتا تھا
وہ چاہتا تو میں دانستہ ہار سکتا تھا
زمین پاؤں سے میرے لپٹ گئی ورنہ
میں آسمان سے تارے اُتار سکتا تھا
مرے مکان میں دیوار ہے نہ دروازہ
مجھے تو کوئی بھی گھر سے پکار سکتا تھا
جلا رہی ہیں جسے تیز دھوپ کی نظریں
وہ ابر باغ کی قسمت سنوار سکتا تھا
پُر اطمینان تھیںاس کی رفاقتیں بلراجؔ
وہ آئینے میں مجھے بھی اتار سکتا تھا
بلراجؔ بخشی
رابطہ:- عیدگاہ روڈادھم پور (جموں)
موبائل نمبر:-9419339303
شمشیر مری، میری سپر کون لے گیا
کشمیر ہوں میں جسم سے سر کون لے گیا
گنبدسلگ رہا ہے، شرر کون لے گیا
دیوارِ شہر گر گئی، در کون لے گیا
اب دور تک غبّا ر اندھیروں کا ہے گواہ
میرے فلک سے میرا قمر کون لے گیا
سب کچھ وصول ہو گیا ہے کھیل کھیل میں
میرا حسابِ نفع و ضرر کون لے گیا
خاموش ہو گئے ہیں مسیحا نگر نگر
لب پر دعا ہے اب بھی، اثر کون لے گیا
اب خواب بھی نہیں ہے گوارا نگاہ کو
اس سبز باغ سے یہ ثمر کون لے گیا
سچ کو چڑھا گئے ہیں فرشتے صلیب پر
افواہ تو ہے گرم، خبر کون لے گیا
اب شہر میں بھی دیکھ رہا ہوں سراب کیوں؟
چہرے پہ آنکھ تو ہے نظر کون لے گیا
آوارگانِ شہر کی آوارگی نہ پوچھ
دستور کی نگاہ سے ڈر کون لے گیا
اشرف عادلؔ
کشمیر یونیورسٹی،9906540315
اِک ہوائے زرد پھیلی دور تک ہے دشت میں
خون میں ڈوبی ہوئی بستی میری، ہوں بست میں
جور سے کل دور رہنے کا درس جس نے دیا
آج شمشیرِ برہنہ دیکھ اُس کے دست میں
اک سیاہ آندھی اُٹھی، دشت و جبل سب ہل گئے
کٹ گئیں سر سبز فصلیں، کال کے اِس گشت میں
کچھ توقع ہی نہ رکھ اربابِ ارضِ سنگ سے
جبر کی ہے تخم ریزی، ظلم کی اس کِشت میں
سب مکیں بستی کے شب کو سوچتے ہیں دیر تک
کس خطا کی ہے سزا یہ، کیوں ہوں اتنا خست میں
مشتاق مہدی
موبائل نمبر: 9419072053
کس نے شُعلے بھر دئے ہیں اس حسین تصویر میں
خون کی ندیاں رواں ہیں جنتِ کشمیر میں
جس اثر سے تھی نسیمِ سحر میں بھی چاشنی
ہے کہاں اب وہ اثر ہر شام کی تاثیر میں
گُل کئے ہیں روشنی کے دشمنوں نے سب دئے
ضوفشانی ہوگئی اُوجھل یہاں تنویر میں
تلملاتے ہیں قضس میں بلبلِ نوخیز بھی
اے خُدا یہ ہو رہا ہے کیا تیری جاگیر میں
زرد پھولوں کی چھبن ہے درد کی دہلیز پر
رنگ کیا کیا بھر دئے اُس نے میری تصویر میں
اے عقیل ؔ اس شہرِ خاموشاں میں کیوں ہے شور و گل
کیا یہی تھا وادی گل پوش کی تقدیر میں؟
عقیلؔ فاروق
متعلم گورنمنٹ ڈگری کالج شوپیان،موبائل: 8491994633
جس طرح بھی ہو محبت کاسفرجاری رکھ
مُشکلیں آئیں گی رستے میں مگرجاری رکھ
تُجھ کوہے چاند ستاروں سے بھی آگے جانا
اپنی ہرجُستجو بے خوف وخطر جاری رکھ
رُوبہ رُو تیرے زمانے کوجھکادے گا یہ
بات کرنے کاہے جوتُجھ میں ہنرجاری رکھ
تیرے اِس دِل میں اگرجُستجو ئے منزل ہے
ہرقدم اپنا سرِرہگذر جاری رکھ
اپنے مقصد میں ہے تُوزندگی میں دُور بہت
پھربھی ہرسوچ تُو اس دل میں مگرجاری رکھ
تُوپہنچ جائے گامنزل پہ کبھی پیارے ہتاشؔ
اِس لئے لازمی ہے اپناسفرجاری رکھ
پیارے ہتاشؔ
موبائل نمبر۔۔8493853607
آپ جس کو فرشتہ کہتے ہیں
اس میں انسان بھی چھپا ہوگا
میری نبضیں بھی تیز چلتی ہیں
اُس کا دل بھی کہیں رُکا ہوگا
یہ نیا شہر ہے، نئے چہرے
کیا میرے گھر میں کچھ بچا ہوگا
سنگ تھا کل تلک جو ہاتھوں میں
آج وہ اک خدا ہوا ہوگا
آگ سمجھے تھے ہم یہاں جس کو
کیا خبر تھی وہ اک دھواں ہوگا
عامر سہیل وانی
موبائل نمبر۔۔9797019743