طوفاں ہے تو تھم جائے ، دریا ہے اتر جائے
وہ صبح کا بھولا ہے اب شام کو گھر جائے
اک دستِ ہنر مانگے اب شوق و جنوں میرا
آرام ہی آئے گا جاتا ہے تو سر جائے
کانٹا ہے تو کم سے کم اک آبلہ پا ڈھونڈے
گُل ہے تو وہ کِھل جائے ، خوشبو ہے بکھر جائے
بن جائے نہ عادت ہی وہ اتنا قریب آ کر
نظروں میں جو رہتا ہے دل میںنہ ٹھہر جائے
بینائی اگر دی ہے منظر بھی دیا ہوتا
رہ رہ کے پلٹتی ہے جس سمت نظر جائے
بلراجؔ یہ چھوٹی سی معصوم سی خواہش ہے
دن رات میں ڈھل جائے اور رات گزر جائے
بلراجؔ بخشی
عید گاہ روڈ ، آدرش کالونی، اُدہم پور
موبائل نمبر؛09419339303
شعورِ خاک کے سانچے میں ڈھل گیا سورج
جو آگے سر پہ ہمارے پِگھل گیا سورج
تڑپ رہے ہیں زمیں پہ یہاں وہاں سائے
کہ اپنی حد سے باہر نکل گیا سورج
کِسی نے چاند کو ہاتھوں پہ مل دیا ہوگا
خبر اُڑی ہے گلی میں پِِھسل گیا سورج
بھٹک رہا ہے وہ صحرا لئے نگاہوں میں
اُسے بتائو سمندر نِگل گیا سورج
وہاں تو آج بھی لگتے ہیں دھوپ کے میلے
یہاں تو شہر میں کب کا بدل گیا سورج
ہنوز دشت میں اُگتے ہیں جن کے انگارے
خبر اُچھال رہے ہیں کہ ٹل گیا سورج
ابھی تو وصل کے ہندسوں کا جوڑ باقی ہے
شفق شفق ہے لگی بھیڑ جل گیا سورج
چہار سمت ہے شیداؔ اُبال کی خوشبو
بدن میں جیسے اُتر کر ہے گُھل گیا سورج
علی شیداؔ
نجدہ ون، نیپورہ اسلام آباد کشمیر، موبائل نمبر: 9419045087
اب نہ پھِر سے میری طرح آج پچھتائے کوئی
بر لبِ دریا پہنچ کر بھی تشنہ لب آئے کوئی
گھر کی چھت پر بیٹھ کر پہروں وہ میرا سوچنا
کاش میرے روُبروُ پھِر سے مِرا آئے کوئی
بھو‘لنے سے کب بھُلا پائے کوئی عہدِ شباب
دفعتاً بھولا سا قِصّہ یاد پھِر آئے کوئی
بے سبب آزار دِل کو یوں بَھلا ہوتا نہیں
جب تلک نِشتر نہ اِس سے آپ ٹکرائے کوئی
قلب یک دو جان صورت بے سبب ہوتا ہے کون
یہ تبھی مُمکن ہے مہ رُخ رُو بہ رُو آئے کوئی
بارِ وحشت راستہ عُشّاقؔ طے ہوتا نہیں
صورتِ سایہ ہی لیکن ساتھ تو آئے کوئی
عُشّاق ؔکِشتواڑی
صدر انجُمن ترقٔی اُردو (ہند) شاخ کِشتواڑ
رابطہ ـ: 9697524469
فِکرِ تعمیرِ جہاں ہو تو غزل ہوتی ہے
عزم شاعر کا جواں ہو تو غزل ہوتی ہے
دولتِ درد سے آباد ہو کاشانۂ دِل
ہر نفس نِشترِ جاں ہو تو غزل ہوتی ہے
موجِ احساس کِھلاتی ہے خیالات کے پھول
درد مائل بہ فغاں ہو تو غزل ہوتی ہے
موسمِ گُل کی سیہ مست گھٹائوں کی قسم
مہرباں پیرِ مُغاں ہو تو غزل ہوتی ہے
بات ہو غالبؔ و اقبالؔ کے انداز کی بات
میرؔ کا طرزِ بیاں ہو تو غزل ہوتی ہے
حُسن عُریاں سرِ بازار اِلٰہی توبہ
حُسن پردہ میں نہاں ہو تو غزل ہوتی ہے
کچھ ہو الفاظ میں عکاسیٔ جذبات وحیدؔ
کچھ اِشاروں میں نہاں ہو تو غزل ہوتی ہے
وحید مسافر
باغات کنی پورہ، موبائل نمبر:9419064259
سکونِ دل نہ ہو ا آج تک مجھے حاصل
کہ آرزو ہی مرے دل کی بن گئی قاتل
حیات لطف سے محروم ہوگئی میری
کہ خواب دیکھ رہا تھا جو ہوگیا زائل
خفا قرار اگر ہم سے ہے ، تو کیا ہے غم
یہی ہے فکر کہ مخدوش سا ہے مستقبل
نہ غرق ہونے پہ شکوہ ہمیں ،نہ ہی حسرت
یہ ناگوار تھا ،کیوں دیکھتا رہا ساحل
شمار کر نہ سکو گے جگر کے داغوں کا
نمی تو چشم کو چھوتی کہ دل بھی ہے بسمل
وہ خوش بھی ہوتے اگر عمر جاوداں ملتی
بجھے گی شمع، سمیٹے گی عارضی محفل
تھا منتظر کہ نوازش کا دور آئے گا
وہ مستحق تھا، جتایا گیا اسے سائل
شکستہ پر تھا کہ پر مارتا رہا طائر
کہ تیر بھی نہ لگااور ہوگیا گھائل
نہ اعتماد کریں گے، نہ التجا ہوگی
بساط بھی نہ لٹے گی، خیالِ خاکِ دل!
وہ کون ہے کہ مرے فن کو دیکھتا تِرچھا
کہ عیب دار نہیں تنہا، کون یاں کاملـ؟
مظفّرؔ منظور
اسلام آباد کشمیر،ریسرچ اسکالر علی گڑھ مسلم ونیورسٹی9906519996
آئے فقیر بن کے تیرے گھر کے سامنے
بیٹھے ہیں آس لے کے تیرے در کے سامنے
کیا دیدنی ہے عالمِ بیچار گی کا حال
بے بس ہیں کس طرح سے ستم گر کے سامنے
اِس بے رخی کو دیکھ کے ہوتا ہے یہ گماں
بیٹھے ہیں اُن کے پاس یا پتھر کے سامنے
مدہوش کردیا ہے نگاہوں سے پلاکے
مستی کے جام رکھ دیئے بھر بھر کے سامنے
آئے نہ جیتے جی کبھی اِک بار دیکھنے
خاطر ہوکیسے، آئے بھی جو مرکے سامنے
اِس کے سوا تو کوئی بھی حسرت نہیں ہمیں
چھوٹی سی جھونپڑی ہو تیرے گھر کے سامنے
دریا دلی پہ کوئی بھی شکوہ نہیں ہمیں
پیاسا کوئی رہا ہے سمندر کے سامنے
خورشیدؔ جی رہا ہے تجھے دیکھ دیکھ کر
پھیرونہ رُخ اُدھر کو ، پہلے کر کے سامنے
سید خورشید حسین خورشیدؔ
چھمکوٹ کرناہ،9596523223
اپنی بے تاب نگاہوں سے وفا کرتا ہے
نہ جسے خود کی خبر، اسکو خُدا کرتا ہے
زندگانی میں کڑھی دھوپ کی شدت جب ہو
یار کیا چیز ہے، سایہ بھی جفا کرتا ہے
اپنے بچوں کے لئے مخملی کپڑے، پر خود
جامۂ چاک کو زخموں کی رِدا کرتاہے
کیا عجیب طرزِ محبت کی ادا ہے! بادل
اپنی بوندوں سے برسنے کا گِلہ کرتا ہے
کوئی کہتا ہے محبت میں تمہیں جان! کوئی
تیری خوشیوں کے لئے جان فِدا کرتا ہے
شاہ فیصل فہمیؔ
صورہ،موبائل نمبر؛9906596679
بڑے فتنے بپا تیرے نگر میں
کٹے پل پل یہاں بس خوف و ڈ ر میں
چلیںکیوں کر قزاقوں کا شہر ہے
کہ ہرصورت میں لُٹنا ہے سفر میں
لہوتیری گلی میں چار سُوہے
صدائو ںکا سماں شام و سحرمیں
نہ جانے ہر طرف کیا کشمکش ہے؟
کہ آئے سب یہاں دُھندلا نظر میں
قضا ہی اب دوا ہے ، ہم شکستہ
گزرکیسے کریں اس شورو شر میں
ہے ظالم ہرطرف خنجر برہنہ
کہ پھرکرب و بلا ہو گادہرمیں
جنونِ عشق کو سمجھی نہ دنیا
کہاںایساہنرتیغ وسپرمیں
واجد ؔ عباس
نوگام سوناواری،فون نمبر؛ 9596724712