اوڑھی ہے خار خار نے اب کے ردائے گُل
گلزار میں بہار کا موسم کھلائے گُل
گاتا ہے گیت پیار کے اس کی ہے یہ خطا
طائر کو با بار چمن میں رُلائے گُل
ساراچمن ہوا ہے پریشان دفعتاً
سنتا نہیں ہے باغ میں کوئی نوائے گُل
خوشبو کا کاروان ہے سارا دھواں دھواں
گلشن میں آج کس نے ہمارے جلائے گُل
یہ تازگی ملیگی ہوائوں میں اب کہاں
عرقِ گلاب آب و ہوا کو پلائے گُل
مالی نہ جانے کیوں ہے پریشان دوستو
ہم نے خزان کیلئے کچھ، کیا بچائے گُل؟
جلتی ہوئی زمین ہے جلتا ہوا فلک
یہ کون سا دیار ہے کس میں بسائے گُل
بلبل یہ کہہ رہا تھا گلوں سے سنو سنو
اس باغ میں گلاب کو کہنا خدائے گُل
اشرف عادل
کشمیر یونیورسٹی ,حضرت بل سرینگر کشمیر
موبائل 9906540315
ٹھیک ہے، بیم و رجا کی بات ہے
آخرش فضلِ خدا کی بات ہے
راہِ حق، صبر و رضا کی بات ہے
التجا، دل سے دعا کی بات ہے
جانتے ہیں نکتہء راز و نیاز !
گفتگوئے بے صدا کی بات ہے
لذتِ کام و دہن اے بو الہوس
فتنۂ حرص و ہوا کی بات ہے
گردشِ شام و سحر کے درمیاں
زندگی آخر بقا کی بات ہے
بلبلو! زاغ و زغن کی بھیڑ میں
ہنر و فن طرزِ ادا کی بات ہے
ہجر بھی خود سے خُدائی ہے میاں
وصل بھی اپنے فنا کی بات ہے
کیا زباں بندی کے اس ماحول میں
شاعری حرف و نوا کی بات ہے
غنچہ و گُل کے تبسم سے عیاں
موجۂ باد صبا کی بات ہے
اک طرف عہدِ وفا کا پاس ہے
اک طرف دستِ جفا کی بات ہے
ہم سے ہوتا ہے ہمارا کچھ بھلا!
سوچنا یہ بھی انا کی بات ہے
دردِ دل میں مبتلا مشہورؔ ہے
مہرباں دستِ شفا کی بات ہے
محمد یوسف مشہورؔ
ہندوارہ،9906624123
فقیروں کا نہ سلطانوں کا استقبال کرتے ہیں
ہم اِنساں ہیں ہم انسانوں کا اِستقبال کرتے ہیں
عجب عالم ہے میرے شہر کے خوددار لوگوں کا
ستم کشتہ سِتم رانوں کا اِستقبال کرتے ہیں
اُٹھو اَے خستہ جانو چاک دامانوں میں آجائو
کہ دیوانے ہی دیوانوں کا استقبال کرتے ہیں
وہ قاتل ہے جو زخمِ لب کُشا سے خوف کھاتا ہے
وہ ہم ہیںجو نمک دانوں کا اِستقبال کرتے ہیں
ہمارا ایک حرفِ معتبر بھی ہے گِراں اُن پر
ہم اُن کے کتنے فرمانوں کا استقبال کرتے ہیں
اب اس سے بڑھ کے دورِ کم نگاہی اور کیا ہوگا
کہ دانشور بھی نادانوں کا استقبال کرتے ہیں
اِسی باعث تو آتے ہیں یہ درد و غم ہمارے گھر
کہ ہم ان اپنے مہمانوں کا استقبال کرتے ہیں
مسافرؔ تو سمجھتا ہے اُن ہی کو آپ کا قاصد
نہ جانے کتنے انجانوں کا استقبال کرتے ہیں
وحید مسافرؔ
باغات کنی پورہ
موبائل نمبر؛ 9419064259
سوچتے کیا ہوزمانے میں اْبھرنے کے لئے؟
حوصلہ چاہیے دریامیں اْترنے کے لئے
خود غرض لوگ اگر ہیں تو شکایت کیسی
اس نے جب چھوڑدیاہے مجھے مرنے کے لئے
میرادشمن تھا مگرجان تو بچ سکتی تھی
مجھ سے راضی نہ ہوابات بھی کرنے کے لئے
میری بربادی کا ہرروز تماشا نہ بنا
تیری ناراضگی کافی ہے بکھرنے کے لئے
تم نے اپنی ہی محبت کا گلاگھونٹ دیا
اس لئے آج ترستے ہوسنورنے کے لئے
دل میں اللہ کاڈرچیخ پڑاتھا،ورنہ
میں تو تیار ہی تھاحدسے گزرنے کے لئے
پوچھتے کیاہوشفیقؔ اْس کی بلندی کاسبب؟
اْس نے کیا کیا نہیں جھیلاہے نکھرنے کے لئے؟
جمیل اخترشفیق
سنڈوارہ، مدھوراپور، باجپٹی، سیتامڑھی، بہار
موبائل نمبر؛9973234929
اس کی جو تعبیر ہے نایاب ہے
زندگی ایسا سُنہرا خواب ہے
دل میں ہر گز مستقل رُکتی نہیں
ہر خوشی اک قطرئہ سیماب ہے
جِس کو کہتے ہیں خلوصِ زندگی
آج کے اس دور میں نایاب ہے
آرزوئوں کے ہیں ہنگامے مگر
اب کہاں پہلی سی آب وتاب ہے
میں نظر اُس سے ملا سکتی نہیں
وہ نظر ہے یا کوئی مہتاب ہے
یہ نہیں نکلے گا رُوبینہؔ کبھی
دل کہ سپنوں میں اگر غرقاب ہے
روبینہ ؔمیر
ؕڈی سی کالونی راجوری،رابطہ:9469177786
ہمیں اک دِن یقیں مانو زمانہ دُور کر دے گا
تُمہارے ہجر ِ کا موسم بدن کو چُور کر دے گا
سُنا تھا عِشق میں بہتا ہے اکثر خون آنکھوں سے
کِسے معلوم تھا دل اِس قدر مجبور کر دے گا
یہ موسم راس آئے گا یقینا ہم فقیروں کو
ہمارا یہ جنوں ہمکو بہت مشہور کر دے گا
گھڑی بھر کے لئے سارے چراغوں کوبُجھاڈالو
رُخِ روشن تُمہارا، بزم کو پُر نور کر دے گا
فضائیں راس کب آتی ہیں جنت کی، دِوانوں کو
ہوا کا ایک جھونکا زخم کو ناسور کر دے گا
نہیں جاویدـؔ رِندوں کو ضرورت جام و مینا کی
بہاروںکا حسیں موسم ہمیں مسرور کر دے گا
سردار جاوید خان
مینڈھرپونچھ۔ فون نمبر9419175198