وصیت درد کی تحریر کرنے جا رہا ہوں
تمہارے نام سب جاگیر کرنے جا رہا ہوں
تمہارا نام لکھ کر سنگِ مر مر پر ابھی سے
نیا اک تاج میں تعمیر کرنے جا رہا ہوں
امیرِ شہر کرنے آ گیا زخموں کا سودا
میں اپنے جسم کو کشمیر کرنے جا رہا ہوں
مجھے اغوا کیا ہے آج کالی آندھیوں نے
میں سارے شہر میں تشہیر کرنے جا رہا ہوں
خرابے میں تمہاری یاد کے منظر سجا کر
میں اپنے آپ کو دِلگیر کرنے جا رہا ہوں
حصارِ ذات سے باہر نکل کر کس لئے میں
خیالوں کو ترے زنجیر کرنے جا رہا ہوں
مکمل تھا کیا جس کو جگر کا خون دے کر
میں اب نیلام وہ تصویر کرنے جا رہا ہوں
زُباں پر بات حق کی پھر سے کوئی آج لاکر
سمجھ لو اک نئی تقصیر کرنے جا رہا ہوں
یزیدو زخم میرے مندمل ہو جائیں گے اب
میں خاکِ کربلا اکسیر کرنے جا رہا ہوں
���
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل: 9419463487
کوزہ گر دیکھ ، اگر چاک پہ آنا ہے مجھے
پھر ترے ہاتھ سے ہر چاک سلانا ہے مجھے
باندھ رکھے ہیں مرے پائوں میں گھنگرو کس نے
اپنی سُر تال پہ اب کس نے نچانا ہے مجھے
رات بھر دیکھتا آیا ہوں چراغوں کا دھواں
صبح ِ عاشور سے اب آنکھ ملانا ہے مجھے
ہاتھ اٹھے نہ کوئی اب کے دعا کی خاطر
ایک دیوار پسِ دار بنانا ہے مجھے
سر بچے یا نہ بچے تیرے زیاں خانے میں
اپنی دستار بہر طور بچانا ہے مجھے
چھوڑ آیا ہوں در ِ دل پہ میں آنکھیں اپنی
اب ذرا جائے جو کہتا تھا کہ جانا ہے مجھے
ذوالفقارنقوی
جموں،9797580748
ابھی تو خواب باقی ہے بشارت لے گیا کوئی
ہوئے ارمان یخ بستہ حرارت لے گیا کوئی
گِلہ کیوں ہے نظاروں کو ہماری بے نیازی سے
ہمیں تاریکیاں دے کر بصارت لے گیا کوئی
ہمارے خواب، خواہش ، آرزو، ارمان لوٹے ہیں
نہ ہم سے دل نوازی کی مہارت لے گیا کوئی
کڑکتی دھوپ میں اب ایک کرتا ہوں لہو پانی
رہا جذبِ عمل دل میں حقارت لے گیا کوئی
ہوائیں کیا گرائیں گی کہ اب خستہ مکاں ہوں میں
میرے پندار کی پختہ عمارت لے گیا کوئی
یہاں ہے خوف ہر لمحہ جوانی کی اُمنگوں کو
لڑکپن بھی لرزتا ہے شرارت لے گیا کوئی
پریشاں ہے بہت اپنی کتابِ زندگی راحتؔ
سبھی اوراق بکھرے ہیں عبارت لے گیا کوئی
رئوف راحتؔ
9419626800