دریائے تیرگی میں بکھرنا پڑا مجھے
سورج کے ساتھ ساتھ اُترنا پڑا مجھے
دو چار دن نگاہ کا مرکز رہا کوئی
پھر فاصلوں کا فیصلہ کرنا پڑا مجھے
کیا جانے کس مزاج کے کتنے حبیب تھے
اپنی ہی آستین سے ڈرنا پڑا مجھے
آنکھوں سے عمر بھر نہ ملاقات ہو سکی
بیکار آئینے میں سنورنا پڑا مجھے
ایک زندگی کو چھوڑ دیا موت کے لئے
اک زندگی کے واسطے مرنا پڑا مجھے
میٹھے سمندروں کے انھیں سے تھے سلسلے
جن کھٹّے پانیوں میں ٹھہرنا پڑا مجھے
اک سچ کی آبرو کی حفاظت کے واسطے
خود اپنے آپ ہی سے مکرنا پڑا مجھے
سید بصیرالحسن وفاؔنقوی
ہلال ہائوس،مکان نمبر ۱۱۴/۴
نگلہ ملاح سول لائن ,علی گڑھ،یوپی
موبائل:9219782014
زندگی میں وہ وقت بھی آئے
میں رہوں خوش مگر وہ پچھتائے
آج مجھ کو رلانے والا کل
میرے اشکوں میں ڈوبتا جائے
درد کا کیا ہے واسطہ دل سے
کوئی یہ بات مجھ کو سمجھائے
کون دن میں مجھے تسلی دے
کون راتوں میں مجھ کو بہلائے
جانے اُس کو کہاں پہ کھویا ہے
موسموں سے کہو کہ بتلائے
اور جسپالؔ ایک دن یوں ہو
میں بھی پچھتاؤں وہ بھی پچھتائے
جسپال کور
نئی دلّی: موبائل نمبر07678339778
بندۂٔ بینا کا ہے بازیچۂ اطفال
اور اعمیٰ کا جہاں ہے مشرق و مغرب
راہیٔ پیہم کے سنگ میل ہیں اطراف
ورنہ منزل کا نشاں ہے مشرق و مغرب
مشرق و مغرب سمجھتے ہیں اسے دنیا
اک سفر کی داستاں ہے مشرق و مغرب
ڈوبنا ہی پھر ابھرنے کی ہے نشانی
اک مثالِ جاوداں ہے مشرق و مغرب
درمیاں میں اختلافِ فہم ہے ورنہ
اشتراکِ دوستاں ہے مشرق و مغرب
تسنیم الرحمان حامی
متعلم کشمیر یونیورسٹی شعبہ انجینیرنگ
9419466642
وسعتِ ذوقِ سخن
فِطرت ہو میری نوُن سے نُکتہ نِکالنا
کانِ ادب سے گوہرِ یکتا نِکالنا
رکھتے ہیں بہُت لوگ ابھی شانِ بصیرت
ذوقِ خیال اُن کا ہو مقصد کھنگالنا
دستِ گدا میں آئے اگر شہ کا قلم دان
آئے کا کارِ خیر کیا اُس کو سنبھالنا
مُجھ کو مِرے حبیب تُو عقلِ سلیم دے
کارِ حیات ہو مِرا اُردو کو پالنا
اہلِ زباں کی صف میں کچھ میرا مقام ہو
غالبؔ کی طرح فِکر کو میری اُبھارنا
مشاتگی سے زُلفِ غزل مَیں سنوار دوُں
ذوقِ سُخن کی وسعتیں میری سنوارنا
ہوں خاکِ پا عُشّاقؔ مَیں حضرت نِشاطؔ کی
سانچے میں اُس کی فِکر کے مُجھ کو بھی ڈھالنا
عُشّاق ؔکِشتواڑی
صدر انجُمن ترقٔی اُردو (ہند) شاخ کِشتواڑ
رابطہ ـ: 9697524469