کچھ گھٹا دی گئی کچھ بڑھا دی گئی
کیا کہانی تھی اور کیا بنادی گئی
شہر کا شہر ہے آج خنجر بکف
کیا مرے سر کی قیمت لگا دی گئی
تیر باقی ہیں کیا ترکشوں میں ابھی
جو ہمیں زندگی کی دُعا دی گئی
آشیانوں کی بربادیوں کا سبب
بجلیوں کی شرارت بتادی گئی
آپ تو اِن کے حلقہ بگوشوں میں تھے
آپ کو کس خطا کی سزا دی گئی
روشنی گھر میں داخل نہ ہو اِس لئے
ہر دریچہ کی چلمن گرا دی گئی
منہ سے لبیک لبیک کہتے ہوئے
جاں نثار آگئے جب صدا دی گئی
غم بھی دُنیا سے بڑھ چڑھ کے ہم کو ملے
سرفرازی بھی سب سے سوا دی گئی
بس اِسی پر ہے برہم زمانہ وحیدؔ
اُس کو تصویر اُس کی دکھا دی گئی
وحید مسافرؔ
باغات کنی پورہ، 9419064259
محبت یہ کیا ماجرا ہوگیا
میں کیا تھا، کیا سے کیا ہوگیا
اندھیرا میرے دل کی مشعل بنا
تصور سےغم کچھ سوا ہوگیا
بہت آئی ہیں مجھ میں تبدیلیاں
میں محبوب جب سے تیرا ہوگیا
کسی اور اُستاد کی کیا طلب
قلم جب میرا رہنما ہوگیا
میں سجدے میں فیروز ؔہوں اب سدا
مہربان مجھ پر خدا ہوگیا
حاجی فیروز الدین بیگ
بجہامہ اوڑی، موبائل نمبر؛9622695632
جستجو کس کی رہا کرتی ہے
چشمِ نم ابر ہوا کرتی ہے
اُس کی حسرت ہے جس کے ہونے سے
رونقِِ بزم اُڑا کرتی ہے
دیکھ تو دل ہوگیا بیکل
اشک کو آنکھ رِہا کرتی ہے
وہ تو سچا ہے اُسکی آنکھوں میں
میری تصویر جلا کرتی ہے
زندگی چبھنے لگی روح میں عابدؔ
مجھ سے بیزار رہا کرتی ہے
عابد نورالامین وانی
شعبۂ اُردوکشمیر یونیورسٹی سرینگر
رابطہ؛9596236255
برائی کی راہ پہ نہ چلنا کبھی
بھلائی کی رہ سے نہ ہٹنا کبھی
گِرو جتنی اونچائی سے تم مگر
کسی کی نظر سے نہ گرنا کبھی
رکاوٹ بھی آئے تو چلتے رہو
رہ ِحق پہ ہر گز نہ رُکنا کبھی
کھڑے ہو حمایت پہ مظلوم کی
تظلّم کے آگے نہ جھکنا کبھی
برائی کا بدلہ بھلائی سے دو
بُرائی کسی سے نہ کرنا کبھی
تعلق اگر ہو کسی سے تمہیں
تو ترک ِ تعلق نہ کرنا کبھی
مصیبت کہیں سے بھی آئے تو تم
لڑو اس سے ڈٹ کر نہ ڈرنا کبھی
تُوخورشیدؔ ہر گز کسی کے لئے
کدورت کو دل میں نہ رکھنا کبھی
سید خورشید حسین خورشیدؔؔ
چھمکوٹ کرناہ
موبائل نمبر؛9596523223
اِک اور خلش اِک اور الم یہ ہجر کا موسم کیسا ہے
اِک اور کسک اک اور ستم یہ ہجر کا موسم کیسا ہے
اے عشق ذرا یہ روگ مٹا، کس کس کو سنائوں میں دُکھڑا
اِک اور ہے بت اِک اور صنم، یہ ہجر کا موسم کیسا ہے
تھا پاس میرے اب دور ہوا، دل ٹوٹ کے چکناچور ہوا
اب آس نہیں بس آنکھ ہے نم، یہ ہجر کا موسم کیسا ہے
اِک درد سمٹ کر آہوں میں، طوفان بنا ہے اے جاناں
اب توڑ دے آکے سارے بھرم، یہ ہجر کا موسم کیسا ہے
کیا روگ ہے کیسا رنج و الم، بس اشک ہیں اور تنہائی ہے
یہ آہ و فغاں یہ زیر و بم یہ ہجر کا موسم کیسا ہے
ہے کیسی عقیلؔ یہ رسوائی، بگڑا ہے برابر ہرجائی
تاعمر رہے گا اُس کا غم یہ ہجر کا موسم کیسا ہے
عقیلؔ فاروق
شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی،موبائل نمبر؛8491994633
وہ حربے بہت آ زمائے پھرے
ستم پر ستم ہم پہ ڈھائے پھرے
ہم بہ پاس وفا منہ چھپائے پھرے
وہ تو باتیں ہزا روں بنائے پھرے
لبِ خشک انکو دکھانا فضول
جو نیزے پہ سر کو اٹھائے پھرے
غمِ عشق و فرقت ، غمِ روزگار
دلِ آشفتہ میں گھر بنائے پھرے
خدا جانے کس کس کی آئے قضا
وہ گر بزم میں مسکرا ئے پھرے
نکل آ حصارِ غمِ ذات سے
یہ غم ہے کہ غم ہی نہ کھائے پھرے
ہوا سنگ باراں تو کچھ غم نہیں
گُلِ یار دل کو دکھائے پھرے
ہوا شاعری کا جب بازار سرد
غزل اپنی خو د کو سنائے پھرے
صدا خون دل روئے مرزا منیبؔ
تجھے دل میںجب سے بٹھائے پھرے
مرزا ارشاد منیب
ناجن بیروہ بڈگام،9906486481
دل کو دل سے لگائے بیٹھا ہوں
جسم اپنا جلائے بیٹھا ہوں
چوٹ دل پرمیں کھائے بیٹھا ہوں
زخم دل کے چھپائے بیٹھاہوں
خواب میں آرہے ہو اب میرے
تجھ کو کب کا بُھلائے بیٹھا ہوں
چھوڑ کر وہ چلا گیا مجھ کو
جان جس کو بنائے بیٹھاہوں
عشق نا کام ہو نہیں سکتا
ساتھ اپنے بٹھائے بیٹھا ہوں
زندگی ہوگئی خفا مجھ سے
موت کے ساتھ آئے بیٹھا ہوں
راستےراستہ بھی کیوں بھولیں
میںتورستہ دکھائے بیٹھا ہوں
چھوڑ کے جب سے وہ چلا،تب سے
اس کی یادیں جلائے بیٹھا ہوں
آج پاگل ہوا ہوںمیں بسملؔ
روگ کیسا لگائے بیٹھا ہوں
سید بسمل مرتضیٰ( صنان)
شانگس اننت ناگ کشمیر
طالب علم :ڈگری کالج اترسو شانگس
9596411285