اہلِ حل و عقد سے میری شناسائی نہیں
اس لیے نالوں کی میرے کوئی شنوائی نہیں
غیر کے آگے کبھی جھکنے دیا میں نے نہ سر
اور درِ باطل پہ کی ہرگز جبیں سائی نہیں
میں نے سچ بولا تو فرمانے لگے مجھ سے جناب!
آج کی دنیا میں حق گوئی بھی دانائی نہیں
آپ جاکر ڈھونڈھ لیں دنیا میں لے کر کے چراغ
آپ کو مل جائے گی ہر شے، پہ سچائی نہیں
ہیچ ہیں سارے مصائب سب بلائیں ناتمام
مشکلیں سب ضبط کرلوں درد رسوائی نہیں
کس زمانے میں ہوں میں اور کون سی محفل میں ہوں
میرے کانوں سے کبھی سچائی ٹکرائی نہیں
فتنہ پردازی، حسد، نفرت، عداوت اور غرور
ان سے بڑھ کر آج کی دنیا میں بلوائی نہیں
آج پہلی بار میرا دل ہوا ہے لخت لخت
شمسؔ نے تو آج تک ایسی سزا پائی نہیں
ڈاکٹر شمس کمال انجم
صدر شعبۂ عربی ، اردو، اسلامک اسٹڈیز
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
موبائل نمبر9086180380
حسنِ فطرت کا نہایت ہی حسین شاہکار، گُل
رونقِ باغِ ارم اور زینتِ گلزار، گُل
راحتِ جان و جگر ہے تحفۂ فصلِ بہار
پیکر بزمِ طرب ہے، جسم عنبر بار، گُل
محوِ آرائش و زیبائش پری صورت کوئی
پیشِ آئینہ مجسّم طالبِ دیدار، گُل
چوم کر دیکھو کہ پرکھوگے انہیں تم سونگھ کر
ہاں! کبھی ہوتے نہیں ہیں درپۓ آزار، گُل
کج کُلا ہوں کو خبر ہو گلستانِ شوق میں
شاخِ نازک کے لئے ہے طُرئہ دستار، گُل
کم نظر کے واسطے ہے برگِ رنگیں ، توڑ دے
چشمِ بینا کے لئے ہے پرتوِ انوار، گُل
جب سجا رکھی تیری تصویر اس پر جانِ من
دیکھتا ہوں تو سراپا ہے وہی دیوار گُل
پھر گل و گلزار ہے اپنے تخیل کا جہاں
پھر کِھلائے ہے خیالِ یارِ دل آزار گُل
جلوئہ نورِ جمالِ یار سے ہی بارہا
کِھل گئے، مشہوؔر غزلوں کے کئی اشعار، گُل
محمد یوسف مشہورؔ
موبائل نمبر؛9906624123
یہ کون چاکِ گریباں دکھائی دینے لگا
کہ دشت دشت جنوں کی دہائی دینے لگا
رچی تھی ہم میں عجب اسْ کی شوخیٔ گفتار
جو اسْ کے دل میں تھا وہ بھی سْنائی دینے لگا
ہوائیں ہو گئیں دْشمن تو معجزہ بھی ہوا
ہر اک چراغ چراغاں دکھائی دینے لگا
ابھی نہ پہنچے تھے ہم شکوہ و شکایت تک
زمانہ اسْ کی طرف سے صفائی دینے لگا
خْدا نہیں تھا، مگر یوں کرم کیا اسْ نے
ہمارے ہاتھ میں گویا خُدائی دینے لگا
ہر اک گرہ نہیں کُھلتی ہر اک کے ہاتھوں سے
تو پھر وہ کیوں ہمیں مشکل کشائی دینے لگا
شبیبؔ چْھٹنے نہ پائیں مشاعرے تم سے
یہ کارو بار بھی اچھی کمائی دینے لگا
ڈاکٹر سید شبیب رضوی
کاٹھی دروازہ ،رعناواری سرینگر
موبائیل :- 9906685395
محبت میں ایسا بھی کوئی سماں تھا
بہت خوش تھے وہ اور میں شادماں تھا
یہ جو دشمنوں میں نظر آ رہا ہے
یہی شخص کل تک مرا رازداں تھا
سلامت ابھی جسم ہے او ر دل بھی
نہ جانے وہ آخر کہاں کا دھواں تھا
ستم ہی ستم ہے ، جفا ہی جفا ہے
گئے دن کہ جب مجھ پے وہ مہرباں تھا
قدم ڈگمگائے مرے چلتے چلتے
کہ ہر اک قدم پر مرا ا متحاں تھا
تمہارے سوا چین آتا کہاں ہے
غم دل تو اتنے دنوں سے کہاں تھا؟
کہیں اپنا چہرا بھی دیکھا ہے راشک ؔ
تمہیں کیا ہوا کل تلک تو جواں تھا
راشک اعظمی
طالب علم شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی
فون نمبر:((9697763697 ٰٰ