سایہ میرے وجود سے آگے نکل گیا
میں ہی غم حیات کے سانچے میں ڈھل گیا
اب تو نئے سفر کا نیا اہتمام ہو
میں نے سنا ہے ہجر کا موسم بدل گیا
کس نے تمہیں کہا تھا ہواوں سے جا ملو
میری تو جھونپڑی تھی تمہارا محل گیا
تا عمر آگ سے ہی میرا واسطہ رہا
وہ طور تھا جو برق تجلی سے جل گیا
آیا خیال ان سے جدائی کا جس گھڑی
سانسوں کی ڈور ٹوٹ گئی دل دہل گیا
ساقی تیری شراب میں اب وہ اثر کہاں
کہتے ہیں جام پی کے دوانہ سنبھل گیا
سردار جاوید خان
مہنڈھر، پونچھ
رابطہ۔ 9697440404
مل جائے مجھے رب کی عطا اور طرح سے
اب دل بھی مانگتا ہے دوا اور طرح سے
میںاور طرح سے تمہیں سیراب کروں گا
تو مجھ سے مانگتا ہے جزا اور طرح سے
وہ اور طرح سے تجھے بہلاتا ہے یہاں
ہاں!تجھ کو ملے گی یہ سزا اور طرح سے
تو اور طرح سے اُسے سمیٹتا ہے کیوں
وہ ٹوٹ کر بکھرا ہے ذرا اور طرح سے
تم نے بھی وفاپرہزاروںتجربے کئے
جلتا ہے سدااِس کادِیا اور طرح سے
وہ خاک کا پتلا ہوا رُخصت ابھی ابھی
تھا خاک میں ملنے کو سجااور طرح سے
ہے سود و زیاں پرٹکا ایماں ترا ضیاءؔ
میں مانتا ہوں اُسکو خدا اور طرح سے
عذرابنت گلزار ضیاءؔ
طالبہ شعبہ اُردو کشمیر یونیورسٹی،سرینگر
حقیقت سے نظریں چراتے ہیں لوگ
کہ چہرے پہ چہرہ سجاتے ہیں لوگ
گزر کیسے کر پائیں تنخواہ پر
ہزاروں سرِ راہ لٹاتے ہیں لوگ
سڑک پر دوں دھرنا مری بے بسی
مگر اس پہ بھی ہنہناتے ہیں لوگ
کٹی چوٹیاں، سربریدہ ہوئیں
ستم پر ستم کیسے ڈھاتے ہیں لوگ
لبوں پر تبسم سجا کر چلیں
یہی رشتہ داری نبھاتے ہیں لوگ
ہے آلودہ ہرسو مری کائنات
اسی میں سکینہؔ نہاتے ہیں لوگ
سکینہؔ اختر
کرشہ ہامہ کنزر ٹنگمرگ
فون نمبر؛9622897729
ہاتھوں کی لکیروں میں جدائی ہے نہاں دیکھ
باتوں سے میری جان بپا ایک قیامت
ملنے سے پیشتر ہوذرا ایک التفات
جانے سے پیشتر کی ادا ایک قیامت
آدمؑ نے میرے واسطے محفوظ رکھی ہے
جنت میں ادھر ہو کے جدا ایک قیامت
یہ زندگی سفر ہیں کی ترتیب سے رواں
منزل پہ پہنچنے پہ سدا ایک قیامت
سب دوستوں کی راہ الگ چاہ بھی الگ
آنکھوں کے اشک بیش بہا ایک قیامت
اے دوستو کھولے رکھو یادوں کے دریچے
آئے گی کبھی میری صدا ایک قیامت
تیمورؔ کی خاموش مزاجی کے اس طرف
نالاں سی ہے جگ بھر کی وفا ایک قیامت
تیمورؔ احمد خان
شعبۂ اُردو کشمیر یونیورسٹی
رابطہ؛9622511809
کتابوں سے محبت ہے!
غلاف ان پر چڑھایا کیوں؟ کتابوں سے محبت ہے
نگاہوں سے ہٹایا کیوں؟ کتابوں سے محبت ہے
کتابیں ہی جہاں کا فلسفہ سمجھا یا کرتی ہیں
ترے پلّے پڑا نہ کیوں؟ کتابوں سے محبت ہے
کتُب چھوڑیں، قلم چھوڑا، لیا ہے ذوقِ تن آساں
ہنر کو بیچ کھایا کیوں؟ کتابوں سے محبت ہے
ترا ذوقِ کتُب بینی رہا دب کے تعیّش میں
یہ لا علمی کا سایا کیوں؟ کتابوں سے محبت ہے!
سبق آموز باتوں کا جہاں ملتا کتابوں میں
مگر تونے نہ پایا کیوں؟ کتابوں سے محبت ہے!
کتابوں کو پسِِ ادراک ڈالا کیوں جوانوں نے؟
ستم اتنا ہے ڈھایا کیوں؟ کتابوں سے محبت ہے!
جہاں میں علم کی شمعیں فروزاں کی ہیں لوگوں نے
یہ ذوق ان میں سمایا کیوں؟ کتابوں سے محبت ہے!
کوئی دیکھے نہ دیکھے پر تجھے کیا غم ہے اے حامی ؔ!
یہ دردِ دل سنایا کیوں؟ کتابوں سے محبت ہے!
تسنیم الرحمان حامیؔ
متعلم کشمیر یونیورسٹی شعبۂ انجینیرنگ
9419466642/[email protected]