اس کا جنت سے کوئی رشتہ ہے
بے سہاروں کا وہ سہارا ہے
چاند تاروں میں روشنی ہے بہت
کیا وہاں آج کوئی میلہ ہے؟
روز و شب میں بھی دشمنی ہے عجب
ایک دوجے کے پیچھے رہتا ہے
عدل پھرتا ہے سر چھپائے ہوئے
تان کر سینہ ظلم چلتا ہے
سچ پہ بالکل یقیں نہیں آتا
جھوٹ کا اتنا بول بالا ہے
سچ یہاں کون بولتا ہے شمسؔ
سچ پہ جھوٹوں کا سخت پہرہ ہے
ڈاکٹر شمس کمال انجم
صدر شعبۂ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
موبائل نمبر؛9086180380
آتشِ قلب کو آنکھوں میں لگایا نہ گیا
محفلِ غیر میں دل میرا جلایا نہ گیا
آنسوؤں کی وہ جھڑی دشمنِ جاں ہی نکلی
محفلِ یار میں پھر ہم کو بلایا نہ گیا
استعاروں کا بھرم ٹوٹ گیا شعروں میں
لفظ کا خونِ جگر جب بھی ہلایا نہ گیا
اور بھی کام تھے دنیا میں محبت کے سوا
تیرے کوچے سے کبھی ہم کو نکالا نہ گیا
تیرگی سے ہی محبت تھی سبھوں کو شاید
شہرِ جاناں میں چراغوں کو جلایا نہ گیا
موسمِ گُل نے لگائی ہے یہاں اب آتش
آبِ الفت کبھی پھولوں کو پلایا نہ گیا
سر نکالا ہے محبت نے کہاں پر یار و
اپنے ارمان کو سینے میں سُلایا نہ گیا
ڈگمگائے تیرے پائو ں ہی مگر عادلؔ سن
راستہ پیار کا کیا تم کو دکھایا نہ گیا
اشرف عادلؔؔ
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل
سرینگر کشمیر ،رابطہ؛9906540315
ہیں محوِ ثنائے رب مُرغانِ سحر یارو
غافلِ ہے تو دنیا میں بس ایک بشر یارو
پابندِ عبادت سب کنجشک بھی شاہیں بھی
تمثیلِِ اطاعت ہیں یہ شمس و قمر یارو
اِک درۂ صحرا ہو یا قطرۂ دریا ہوا
آتی ہے مجھے ہر شے سجدے میں نظر یارو
اس عالمِ فانی میں شاہین صفت جو تھے
اِفلاک پہ کرتے ہیں شب و روز بسر یارو
جب دورِ غلامی ہو رودادِ قفس کیسی؟
گھر گھر ہے جہاں زنداں وہ میرانگر یارو
فرعون کہ ہاماں ہو،بو لہب کہ ہو قاروں
ہر دور میں باطل کی ٹوٹی ہے کمریارو
فرقان مسافرؔ بس آنکھوں کی بصیرت ہے
ہے اُسوۂ محسن میں تابندہ اثر یارو
وحید مسافرؔ
باغات کنی پورہ
موبائل نمبر؛9419064259
گلشن پہ مہربان یہ موسم نہیں ہوا
پھولوں کے ساتھ جو ہوا کچھ کم نہیں ہوا
آدم کی خطا اب تلک تڑپاتی ہے اُسے
ابلیس اپنے جرم پہ برہم نہیں ہوا
لاکر حصارِ ذات میں قیدی بنا دیا
خلدِ بریں میں مطمئن آدم نہیں ہوا
موجود ہی نہیں ہے دل سینے میں اس لئے
بربادیٔ چمن سے کوئی غم نہیں ہوا
ہے محوِ آرائش کوئی جلوہ گر سدا
جو کائنات میں ہو ایکدم نہیں ہوا
فطرت کے اصولوں سے وہ مجبور تھا شاید
جو آشنا تو تھا مگر محرم نہیں ہوا
دانشؔ عجیب اس کا ہے اندازِ گفتگو
اُس نے بہت کہا مگر برہم نہیں ہوا
سید وقار دانش
گورنمٹ ڈگری کالج کنگن،
رابطہ نمبر؛ 7298762449
گزرا بچپن آئی جوانی
زیست تو یارو ہے یہ فانی
کھیل کھلونوں کا وہ زمانہ
یاد آئے بچپن کی کہانی
وہ فصلِ گل کی بادِ بہاری
رونق باغ کی رُت مستانی
دنیا اُسکے دم سے قائم
دل کی تمنا نغمہ خوانی
نفرت کی دنیا میں فاروقؔ
ہرجا یہ ہے رام کہانی
فاروق احمد ملک
کوٹی ڈوڈہ
بہن بیٹی ہوئی رسوا، یہاں ہر ماں پریشاں ہے
پرندے ہی نہیں، سہما ہوا سارا گلستاں ہے
تڑپتی روح، شکستہ دل، سسکتی سانس کے نالے
ہلائے عرش لیکن یاں؟ بتایہ کیسا ایواں ہے؟
جتن جینے کا میرا کیوں گوارا ہے نہیں اُن کو
زمین پیاسی لہو کی، آسمان بھی مجھ سے نالاں ہے
نیا کوئی دھماکہ کر،نئی کچھ بات پھیلادے
کہ بازاروں میں ہاتھوں ہاتھ بکتا ایسا ساماں ہے
فضاء میں زہر، مرجھائے گل ولالہ یہاں ہرسو
کہ گلشن ہے یہ کہنے کو مگر صورت میں شمشاں ہے
کوئی کہہ دے بہارِ جانفزا کے خواب خواہوں سے
خزاں ہے خیمہ زن دیکھو، یہاں ہر گوشہ ویراں ہے
کوئی تو درد کا اپنا مسیحا بن کے دِکھلائے
ضرورت جس کی ہے مجھ کو، کہاں پر وہ مہرباں ہے؟
ترے صبر و رضا کو آزمانے بیٹھے ہیں آزادؔ
ذرا ان کو دکھا دے تو بھی اس سے بڑھ کے طوفاں ہے
شوکت حسین آزادؔ
ذلنگام کوکرناگ اسلام آباد
9596481278