بھول کر بھی یاد آئے راستے محبت کے
حافظے میں رہتے ہیں حافظے محبت کے
آسمان سے اترے ہیں قافلے محبت کے
یوں نہیں ہوا کرتے حادثے محبت کے
کیا جگر پہ گزری ہے کیا ہنر پہ گزری ہے
ورنہ کون لکھتا یوںسانحے محبت کے
نفرتوں کی پیتے ہیں گھونٹ گھونٹ تلخی ہم
یوں خراب ہوتے ہیں ہاضمے محبت کے
ڈوب ڈوب کے ابھرے ہیں کنارے الفت کے
دور دور تک پھیلے حاشئے محبت کے
کچھ خلوصِ نیت میں ہی نہ کھوٹ ہو ورنہ
بے نمک نہیں ہوتے ذائقے محبت کے
خار خار کی رہتی ہے نظر گلابوں پر
کم نہیں ہوا کرتے فائدے محبت کے
پھونک پھونک کر رکھنا ایک اک قدم عادل ؔ
خار خار ہوتے ہیں راستے محبت کے
اشرف عادل ؔ
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل
سرینگر کشمیر ،موبائل نمبر؛9906540315
سرِ شوریدہ گاں کچلتے ہو!
صورتِ غم میں آپ ڈھلتے ہو
یوں تو چہرے بدلتے دیکھتے ہیں
کیا کہا! جسم و جاں بدلتے ہو؟
آدمی مور ہے سلیماں کا!
جس کو قدموں تلے مسلتے ہو
تم مرے ہم نفس ہو مُغ بچو!
تم مگر من ہی من میں جلتے ہو
خون ڈاکہ ہو لوٹ ماری ہو
انہی چیزوں سے تم بہلتے ہو
بحرِا بیض کو بحرِ احمر میں
کِس صفائی سے تم بدلتے ہو
اپنے کندھوں پہ رکھکے اپنی لاش
غافلاں گھر سے تم نکلتے ہو
لاشِ بے گورو بے کفن اپنی
دیکھ کر کودتے اُچھلتے ہو
وہ تو پتھر جگر ہیں پاشاجیؔ
میری آہوں سے تم پگھلتے ہو؟
پاشا جیؔ
بڈ کورٹ ہندوارہ، 9596555312
جواں تجھ کو محبت نے کیا ہوتا
پھر اُس پر زخم بھی کوئی دیا ہوتا
میں کیسے بھی مگر سلجھا چکا ہوتا
کوئی اِس گانٹھ کا جب کہ سِرا ہوتا
اگر ڈھب سے نہ تیری آشنا ہوتا
یہ بیمارِ محبت سو گیا ہوتا
مریضِ ہجر سے گر وہ بھِڑا ہوتا
دمِ عیسیٰؑ بھی اُس دم تھم گیا ہوتا
نہ ہو پایا مداوائے الم ہم سے
وگرنہ چاک کو ہم نے سیا ہوتا
فلک کی آرزو ہی ہم کو لے ڈوبی
زمیں نے ہم کو گردوں کر دیا ہوتا
اگر جامِ وصال اُن کا پیا ہوتا
کوئی دم تو بھی تُو خواہشؔ جیا ہوتا
خواہشؔ کشمیری
شہرِ خاص، سرینگر
موبائل نمبر؛ 9469366682
زندگی کو عذاب ہوتے دیکھا ہے
حقیقت کو خواب ہوتے دیکھا ہے
ڈر لگتا ہے تجھ سے دوستی کرنے میں
ہم نے سمندر کو سراب ہوتے دیکھا ہے
ایک میں ہی قائل نہیں ترے حْسن کا
پارساوں کو لاجواب ہوتے دیکھا ہے
جب بھی عشق کا تذکرہ چل نکلے
بڑھاپے کو شباب ہوتے دیکھا ہے
میرا تعاقب کر رہا ہے ڈر برسوں سے
آنکھوں نے کتنا عتاب ہوتے دیکھا ہے
اس سے زیادہ کیا دْکھ ہو گا خوشحال ؔ
ہم نے خود کو نایاب ہوتے دیکھا ہے
خوشحال میر
کرناہ دلدار ،؛9622772188
آواز کی دنیا کا طلبگار نہیں ہے
یہ شخص جو رویا ہے گنہگار نہیں ہے
ہر بات پہ سچ کہتا ہے وہ بھی سرِ محفل
یہ تیری طرح جھوٹ کا شاہکار نہیں ہے
کرگس کے جہانوں میں یہ شاہین کا بچہ
آوارہ بلاشک ہے پر بیکار نہیں ہے
مسجد میں تُو واعظ ہے شوالے میں پجاری
کچھ روز کامیلا ہے یہ بازار نہیں ہے
تابشؔ تمہارے دور کا معزور حکمراں
فولاد کا ٹکڑا ہے یہ تلوار نہیں ہے
جعفرحسین تابشؔ
مغلمیدان،کشتواڑ،رابطہ؛ 8492956626
مانتا ہوں مسکرانا چاہیے
یوں ہی کیوں کوئی بہانہ چاہیے
دیدو !بچپن کا زمانہ چاہیے
اور موسم بھی سہانا چاہیے
کیا مجھے سمجھیں گے یہ چہرے نئے
ہمنوا میرا پرانا چاہیے
گرچہ پتھر ہی بنا میرا نصیب
اب ہنربھی آذرانہ چاہیے
جل گیا ہے آشیاں اور پھول بھی
بلبلو ماتم منانا چاہیے
گربجھا سکتا نہیں دانشؔ یہ پیاس
اس سمندر کو جلانا چاہیے
سید وقار دانش
گورنمٹ ڈگری کالج کنگن
رابطہ نمبر؛ 7298762449
عشق کی آب و تاب ہم ہی تھے
تیری آنکھوں کا خواب ہم ہی تھے
کوئے جاناں میں ہم بھٹکتے پھرے
ایسے خانہ خراب ہم ہی تھے
جوکہ ٹھہرے تھے وارثِ الفت
لوگ وہ لاجواب ہم ہی تھے
ہم کہ جان و جگرکئے قربان
پھر بھی زیر عتاب ہم ہی تھے
کچھ تو وہ تھے کہ پار بھی اتر ے
کیا کریں زیرِ آب ہم ہی تھے
جب بھی جھانکا چمک اٹھے زندان
آفتاب در نقاب ہم ہی تھے
افروزہ منظور
دلنہ ،بارہمولہ
یــاد
اِک ذرا سا اُجالا رہا ہر طرف
جب سے وہ عنبریں ہم سے اوجھل ہوا
آنکھ میں بن کے منظر پھِرا کُو بہ کُو
غم کی صورت بنا جب ،وہ کاجل ہوا
دل کے کھیتوں پہ برسا کیا ہر گھڑی
جب تصوّر کیا تب وہ بادل ہوا
میں نے مانا رہا مطمئن عمر بھر
پھر نہ جانے یہ دل کیسے بیکل ہوا
چاند میں جب تیرا عنبریں رُخ دِکھا
لوگ کہنے لگے ہاں یہ پاگل ہوا
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
اِس تصوّر سے دل ایک جنگل ہوا
تپتے سحرا میں عابدؔ رہے عمر بھر
اِک ذرا سا تصوّر بھی بادل ہوا
عابد نورالامین وانی
ریسرچ اسکالر
شعبۂ اُردوکشمیر یونیورسٹی سرینگر
ای میل:[email protected]
رابطہ:9596236255
ہوئے خوش داورِ محشر کہ ہم صالح بیاں نکلے
ہوں ممنونِ کرم اُنکا نہایت مہرباں نکلے
وفورِ حرص میں ہم نے گنوائی بے سبب ہستی
بلآخر چھوڑ کر سارا یہیں سُود و زیاں نکلے
متاعِ زیست کا ملنا کرم کا کھیل ہے خاکی
جنازہ اسکا نکلے بھی ، نہایت عزوشاں نکلے
نقابِ دہر میں رہنا ہی ہم نے مصلحت سمجھی
رموزِ وقت کے ڈھب سے ہم آخر بے نشان نکلے
بظاہر تھاگماں ہمکو کہ ہیںہمدم ہمارے بھی
بہ باطن اُن کو پرکھا تو وہ آخر بدگماں نکلے
جہانِ زیست میں مولیٰ خطائیں ہوتی رہتی ہیں
ہمارے ہمنوا لیکن لئے تیرو کماں نکلے
ابھی چشمِ تخیل میں ہے صورت جانگزیں کوئی
یہی ہے زعم وہ شائد ہمارا مہرباںنکلے
سرابِ دشت ہے لیکن یقینِ بدگماں اپنا
زمیں سنگلاخ ہو تو پھر کہاں کوئی کنواں نکلے
کوئی تو کارِ لایق کر جہانِ زیست میں عُشاقؔ
چراغِ زیست سے تیری نہ جانے کب دھواں نکلے
عشاقؔ کشتواڑی
صدر انجمن ترقی اردو (ہند) شاخ کشتواڑ
موبائل نمبر؛9697524469