میں اُس سے کہہ نہ سکا آپ ہیں غزل کی طرح
غزل تو آج ہے آلودہ جھیلِ ڈل کی طرح
سْلجھ نہ پائی یہ دُنیا، سدا اُلجھتی رہی
ترے مزاج، ترے گیسووں کے بَل کی طرح
شریف لوگ، غمِ روز گار کیا کرتے
عمل یہی ہے کہ بیٹھے بے عمل کی طرح
یہ شہرِ جاں ہے جہاں جشنِ مرگ جاری ہے
کہ زندگی بھی ہے اک کشتۂ اجل کی طرح
سمٹ ہی جاتا ہے ہر لمحہ یادِ ماضی میں
گزر ہی جاتا ہے ہر آج پچھلے کل کی طرح
شبیبؔ دیکھ کے آئینہ کل ہوا محسوس
نشاط باغ بھی اب ہے پری محل کی طرح
ڈاکٹر سید شبیبؔ رضوی
کاٹھی دروازہ رعنا واری سرینگر
موبائیل :- 9906685385
ہے ان نظروں کی گھاتوں میں کہیں اورزیادہ
اُلجھیں نہ وہ باتوں میں کہیں اورزیادہ
جودِن میں پریشان سے رہتے ہیں برابر
بِکھریں گے وہ راتوں میں کہیں اور زیادہ
جب اہلِ سیاست کے بیان لوگ سُنیں گے
بٹ جائیں گے ذاتوں میں کہیں اورزیادہ
جب یادکسی کی ہمیں آئے گی برابر
تڑپیں گے ہم راتوں میں کہیں اورزیادہ
دِن میں بھی فراموش نہیں کرتامیں اُن کو
یادآتے ہیں راتوں میں کہیں اورزیادہ
دِن میں نظرآئیں گے کہاں چاند سِتارے
چمکیں گے یہ راتوں میں کہیں اورزیادہ
اے پیارے ہتاشؔ اُن کونہ ہم پاسکے دِن میں
کھوجائیں گے راتوں میں کہیں اورزیادہ
پیارے ہتاشؔ
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
رابطہ نمبر:8493853607
نئے آذر کا جادو چل رہا ہے
نئے سانچے میں سُورج ڈھل رہا ہے
ہوائوں میں ہے اب آتش مزاجی
زمیں پر پھر سے بادل جل رہا ہے
نِگہ کر لو ذرا سُوئے فلک تم
فلک خود آنکھ اپنی مل رہا ہے
برف کے کوہ ہیں معدوم صورت
ہمالہ غالباً اب جل رہا ہے
لگائے آگ ہے پانی میں کوئی
چہ معنی مچھلیوں کو تل رہا ہے
سروں کے لگ گئے انبار کتنے
تظلم شہ کو شائد کِھل رہا ہے
غنیمت ہے کہ دہقاں ہے سلامت
نظامِ خورد و نوشی چل رہا ہے
کہے عُشاقؔ تجھ سے اہلِ اُردو
ترے شعروں میں اکثر بل رہا ہے
عُشاقؔ کشتواڑی
صدر انجمن ترقی اْردو (ہند) شاخ کشتواڑ
فون نمبر9697524469
عبث ہم اِسے آزماتے رہے
زمانے سے ہم مات کھاتے رہے
ہمیں ہاتھ سب سے ملاتے رہے
یونہی رسمِ دُنیا نبھاتے رہے
ہے دونوں کا ہی خیر مقدم کیا
کہ دُکھ اور سُکھ جب بھی آتے رہے
تھے ماضی کے ایسے بھی اَن مِٹ نقوش
جو سپنوں میں آکر ڈراتے رہے
حسیں اِسقدر تھی کہاں زندگی۔۔۔؟
جِسے عمر بھر ہم سجاتے رہے
حقیقت میں روبینہؔ مجرم تھے خود
وہ ہم کو جو مُجرم بناتے رہے
روبینہ ؔمیر
ڈی سی کالونی راجوری،رابطہ:9469177786
تیرے آلودہ ذہن کی کیا کروں تعبیر میں
دیکھ کر غمگین ہوتا ہوں تری تصویر میں
کیا یہ ممکن ہے صحیح کو ہم کرینگے اب غلط
زندگی گذری ہے ابتک اپنی بس تقصیر میں
ہے قلم تیری عنایت اے میرے ربِّ جلیل
علم و عرفان کی وہ دولت لکھ میری تقدیر میں
یہ تو دنیا چند روزہ اِک متاعِ خام ہے
موت آنے تک تو سمجھا تھا اسے جاگیر میں
میں گناہوں سے بھری جھولی لئے حاضر ہُوا
ربِّ کعبہ سے دُعا کی دیکھ لوں تاثیر میں
رہنمائے دین و دنیا ہیں مسافرؔ مصطفی ؐ
زندگی بھر جان و دل سے تو کروں توقیر میں
وحید مسافرؔ
باغات کنی پورہ چاڈورہ
موبائل نمبر؛9419064259
ہونٹوں پہ سجائی تھی دُعاء رات گئے تک
شاید وہ میرے دل میں رہا رات گئے تک
وہ مجھ کو دیکھتا ہی نہیں نظریںاُٹھا کر
میں اُس کو دیکھتا ہی گیا رات گئے تک
اُلجھے ہوئے تاروں کی عجب مست نظر تھی
آنکھوں میںتھی ہلکی سی حیاءرات گئے تک
کس طرح ہم نے کی ہے زمانے سے دشمنی
حیراںرہی گنگھور گھٹا رات گئے تک
وہ میرا ہاتھ تھام کر کہتا ہے بار بار
’’شاید ہمیں مل جائے خدا رات گئے تکـ‘‘
بُجھتے گئے چراغ سبھی مرے سامنے
اِس شہر میںدِکھا وہ کرب رات گئے تک
برباد ہوا ہے ضیاءؔ دونوں کا گھر مگر
اِس غم میں ،میں تنہا ہی جگا رات گئے تک
عذرابنت گلزار ضیاءؔ
طالبہ شعبہ اُردو کشمیر یونیورسٹی،سرینگر