آرزو پھر جگا کے حد کردی
عشقِ آتش لگا کے حد کردی
زندگی سے میری جاکے حد کردی
یاد کا گھر بسا کے حد کردی!
یہ بخیلی مبارک ہو تجھ کو
میں نے آنسو پلا کے حد کردی
رسمِ الفت سے ناواقف ہوں میں
میں نے اس کو بُھلا کے حد کردی
اس نے راہوں میں آگ بھر دی جو
ہم نے چل کر دکھا کے حد کردی
تو وفاڈھونڈ مت زمانے میں
میں نے سب کوبُھلا کے حد کردی
اب وفا مل کتاب میں جائے
اس نے قصہ سنا کر حد کردی
ایک دل میں ہزار خانے ہیں
ہاتھ اپنا چُھڑا کے حد کردی
مسکراہٹ سے بیر تھا تجھ کو
اشکِ فرقت بہا کے حد کردی
جبیں نازاں
لکشمی نگر، نئی دہلی
زمین پاؤں تلے دلدلی لگے ہے مجھے
مسافرت کی یہ صورت نئی لگے ہے مجھے
یہ تجربے کا تقاضا ہے نام دوں کچھ اور
اب اک فریب سی یہ زندگی لگے ہے مجھے
ہمارے شہر کا تم حال چال کیا پوچھو
کہ مخمصے میں ہر اک آدمی لگے ہے مجھے
بلا کی فتنہ گری ہے یہاں پسِ پردہ
بناوٹی سی یہاں خامشی لگے ہے مجھے
ہمارے درد کے درماں کا عہد کرتا ہے
نیا ہی داؤ یہ دریا دلی لگے ہے مجھے
کسے سنائے کوئی دکھ کی داستاں اپنی؟
وباء کا کرب تو اب عالمی لگے ہے مجھے
یہ سوچتا ہوں کہ گوشہ نشین ہوجاؤں
تھکی تھکی سی مری زندگی لگے ہے مجھے
عجیب دور سے ہے واسطہ پڑا بسملؔ
یہاں کی روشنی بھی تیرگی لگے ہے مجھے
خورشیدبسملؔ
تھنہ منڈی راجوری
موبائل نمبر؛9622045323
دل کو لگاؤ سوچ کے پہلے
شعر سناؤ سوچ کے پہلے
جو ہے اُسے منظور وہ ہو گا
دِل نہ جلاؤ سوچ کے پہلے
جو بھی بات تمہیں کہنی ہو
لب پر لاؤ سوچ کے پہلے
سارے خواب نہ پُورے ہوں گے
خواب سجاؤ سوچ کے پہلے
سب کو خُدا بھی نہیں ملتا ہے
کعبہ جاؤ سوچ کے پہلے
بکھرے اگر تو پھر کیا ہو گا
رنگ سجاؤ سوچ کے پہلے
عارف دور پڑے گا جانا
پاس بھی آؤ سوچ کے پہلے
عرفان عارف
صدر شعبہ اردو کامرس کالج جموں
موبائل نمبر؛9682698032
اُلجھا ہوں اِس طرح میں خیال و گمان سے
ہوش و خرد پٹخنے لگے سر چٹان سے
اب تو پروں کو کھول تخٔیل کے مرغ دیکھ
اپنے ہنر کی ساکھ ہے تیری اُڑان سے
شیریں سخن سخن میں پرونے کے واسطے
اِک جنگ لڑنا پڑ تی ہے گویا زبان سے
یوں آرہے ہیں میری طرف لشکرِ خیال
نکلے ہوں جیسے تیر ہزاروں کمان سے
صیاد نے قفس میں اُنہی کو کیا ہے قید
وہ چند عندلیب جو تھے خوش بیان سے
ہے سانحہ یہی کہ زمیں کی طلب میں ہم
بے ساختہ بچھڑتے گئے آسمان سے
امجدؔ جہاں میں آئے تو تھے اشک و خوں لئے
لیکن جہاں سے گزریں گے ہم شادمان سے
امجد اشرف
شلوت سمبل سوناواری،موبائل نمبر؛7889440347
سچ کیا تھا کسی کو وہ بتاتا ہی نہیں ہے
اب اس پہ کوئی انگلی اٹھاتا ہی نہیں ہے
اس سے وفا کرتے ہوئے اک عمرگنوا دی
عہدِ وفا کر کے جو نبھاتا ہی نہیں ہے
معلوم تھا وہ پیٹھ پہ ہی وار کرے گا
خنجر کبھی سینے پہ چلاتا ہی نہیں ہے
کرتا بھی نہیں میری کفالت وہ ادا اور
کوئی جو کرے تو سہا جاتا ہی نہیں ہے
اغیار کو کیوں کر بھلا ہو اس سے شکایت
اپنوں کو بھی خاطر میں جو لاتا ہی نہیں ہے
سب لوگ مجھے روکتے اور پوچھتے تھے حال
اب سامنے میرے کوئی آتا ہی نہیں ہے
پھرتا ہے دو دو ہاتھوں میں کشکول پکڑ کر
جیسے کبھی پیسہ تو کماتا ہی نہیں ہے
عذراؔ یہاں جس دن تو کوئی شعر سنائے
اس دن تو کوئی شعر سُناتا ہی نہیں ہے
عذرا حکاک
سرینگر، کشمیر
جان و دل بے قرار رکھا ہے
کیسی حالت میں یار رکھا ہے
رات کو اس کی یاد میں کھو کر
خیر سے دن گزار رکھا ہے!
ہجر کے سخت مرحلوں کے لئے
میں نے خود کو تیار رکھا ہے
کاش مجھ سے یہ پوچھ لے کوئی
کیوں مجھے اس نے خوار رکھا ہے
میں تو حیران ہوں بتا کس نے
میرا یہ گھر سنوار رکھا ہے؟
ایک ہی شخص تھا مری خاطر
اس کو سرحد کے پار رکھا ہے!
آپ صدیوںکی بات کرتے ہیں
ہم کو پل پل نے مار رکھا ہے
آج تک ہجر کے عذابوں کا
یار کس نے شمار رکھا ہے
میرے بیمار دل پہ شاہیؔ جی
بوجھ کس نے سوار رکھا ہے
شاہیؔ شہباز
وشہ بگ پلوامہ
موبائل نمبر؛7889899025