اُس کے دِل میں نہ جانے کیاغم تھا
جب بھی دیکھااُسے وہ پُرنم تھا
زِندگی اِس طرح میری گُزری
سلسِلہ رنج وغم کاپیہم تھا
کھویاکھویا تھا یہ خیالوں میں
دِل کاعالم عجیب عالم تھا
مُدتّوں سے نہیں مِلامجھ سے
مُدتوں سے وہ مُجھ سے برہم تھا
اُس کااِظہار ہی وہ کردیتا
اُس کے دِل میں اگرکوئی غم تھا
سب کی آنکھوں سے کیوں تھے اشک رواں
شہر سارا جو محوِ ماتم تھا
اُلجھتارہتاہے مُشکلوں سے ہتاشؔ
اُس کواحساس یہ بہت کم تھا
پیارے ہتاشؔ
دوردرشن گیسٹ لین، جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607
دل میں ہو گر چین سب اچھا لگتا ہے
ورنہ سنسار تو کچرا لگتا ہے
ٹوٹ چکا ہر انگ عمر کے ڈھلنے سے
دل ہے لیکن اب بھی بچہ لگتا ہے
کھول کے پھن ناگوں نے گھیرا ڈالاہے
جان پہ بن آئی ہے، ایسا لگتا ہے
بولوں سچ تو شہر میں دُرگت بنتی ہے
سب کہتے ہیں یہ تو بہکا لگتا ہے
سوکھ گئے وہ پیڑ جو سایہ دیتے تھے
دور تلک اب صحرا صحرا لگتا ہے
کل جگ کا یہ رنگ کہ پاپا بچوں کو
ایرا غیرا نتھو خیرا لگتا ہے
چپہ چپہ دھرتی کا تو بانٹ لیا
ہوگا اب آکاش پہ جھگڑا لگتا ہے
کانوں میں رس گھولے دل کو چھو لے جو
شاعر کا بس شعر وہ اچھا لگتا ہے
ان کا جیون بھی کیا جیون ہے بسملؔ
جن کو جیون کھیل تماشا لگتا ہے
خورشید بسمل
تھنہ منڈی راجوری، موبائل نمبر؛9086395995
وہ سایہ دار شجر بس اسی گمان میں ہے
بچھڑ کے اُس سے پرندہ ابھی اُڑان میں ہے
مرے خیال کی پرواز کون سمجھے گا
مرا وجود یہ مانا مرے مکان میں ہے
ستاتی رہتی ہے خواہش بھی دھوپ کی اکثر
سکونِ دل بھی بہت مجھ کو سائبان میں ہے
جکڑ لیا ہے مصائب کی تیز آندھی نے
میں دیکھتا ہوں کہ دنیا بھی امتحان میں ہے
نجات مل گئی کشتی سے تیز طوفاں میں
مگر وہ ایک تلاطم جو خاندان میں ہے
اب اُس کے پاس نہ آذر نہ اب خلیل کوئی
جدید دور کا نمرود کس گمان میں ہے
سمندروں نے بھلایا نہیں ابھی ہم کو
ہماری پیاس کا چرچا ابھی جہان میں ہے
سنا ہے وقت زمیں کا اُسی نے ٹھہرایا
وہ ایک جہدِ مسلسل جو آسمان میں ہے
تمام خلق چلی آرہی ہے سننے کو
ضرور کوئی تو جادو تری زبان میں ہے
ڈاکٹر ہلالؔ نقوی
ہلال ہائوس مکان نمبر ۱۱۴/۴
نگلہ ملاح سول لائن ،علی گڑھ یوپی
موبائل:9219782014
کیا لیکر جائو گے دربارِ اِلٰہی میں
دن کیسے بِتائو گے دربارِ اِلٰہی میں
حاضر وہاں سب ہونگے فُرقان و محمدؐ بھی
منہ کیسے دکھائو گے دربارِ اِلٰہی میں
نظروں میں خدائی کے ملکوت و بشر ہونگے
پھر کیا کیا چھپائو گے دربارِ اِلٰہی میں؟
ہر شے کا فنا ہونا دُنیا میں ازل سے ہے
بس موت نہ پائوگے دربارِ اِلٰہی میں
مشعل یہاں روشن کر تو حق و صداقت کی
فردوس میں جائو گے دربارِ اِلٰہی میں
سوزاں ہے مسافرؔ کا اب خوفِ خدا سے دل
کیا حال سنائوگے دربارِ اِلٰہی میں
وحید مسافرؔ
باغات کنی پورہ، موبائل نمبر؛9419064259
ہاں ابھی تک غبار باقی ہے
جو جلا ہے وہ تار باقی ہے
کیسے کہدوں میں حالِ دل اپنا
اب نہ کوئی خمار باقی ہے
کٹ چکی ہیں وہ ساری زنجیریں
بس یہ دیوارِ یار باقی ہے
جب لگے ٹوٹنے سبھی ناطے
تب بھی اک یارِ غار باقی ہے
چھوڑ دی شاعری بہت پہلے
شاعروں میں شمار باقی ہے
میں نے میخانے کو کیا رسوا
شرم کی اک دیوار باقی ہے
صفدر یوسف
باکی ہاکر ہندوارہ
موبائل نمبر8491020140
وہ ماضی کی یادیں،وہ ما ضی کے سائے
کِرن بِن کے پھوٹے گھٹا بِن کے چھائے
نہیں ہے یہ ممکن میں اُن کو بھُلائوں
نِظرسے اُتر کر جو دِل میں سمائے
عجب حال ہوتا ہے کس کو سُنائوں
وہ جانِ جگر جب مُجھے یاد آ ئے
وہ یوں آکے جا ئے گی سا حل پہ جیسے
کبھی موج آ ئے کبھی موج جائے
ہے معلوم سب کو سبھی کو خبر ہے
منیؔ کو جو آکر ہمیشہ ستائے
ہریش کمار منیؔ(بھدر واہ)
رابطہ؛9596888463
محبت کے بنا بھی زندگی میں ساز ہوتا ہے
کسی بھی طرح ہو جینے کا اِک انداز ہوتا ہے
پرندہ آسماں کی وسعتوں میں راکھ ہوجائے
فضاء میں تو مگر ذکرِ پرِ پرواز ہوتا ہے
سکھاتی زندگانی کی حقیقت عمر بھر ہیں جو
ہمیں اُن ٹھوکروں پر بھی کبھی کیا ناز ہوتا ہے
ترے جلوے سے ہی آباد ہے میرا چمن سارا
کبھی رنگوں، کبھی بُوباس سے ممتاز ہوتا ہے
سکینہ ؔکیوں مقیّد کردیا ہے خود کو ہنسنے میں
ٹپکتے آنسوئوں میں بھی تو کوئی راز ہوتا ہے
سکینہ اختر
کرشہامہ کنزر،موبائل نمبر؛9622897729