آتش عشق میں اس طرح دھواں ہو جاؤں
لب کشائی بھی نہ ہو اور بیاں ہو جاؤں
تجھ سے بچھڑوں تو بھٹک جاؤں ہواؤں کی طرح
اور مل جاؤں تو بے سمت و نشاں ہو جاؤں
تُو جو چاہے تو یقیں بن کے ترے دل میں رہوں
ورنہ اک پل میں ترا وہم و گماں ہو جاؤں
سلسلہ کوئی رُکے میرے بِنا اور نہ چلے
کہاں مٹ جاؤں بتا اور کہاں ہو جاؤں
سب کی ہمدردیاں لذت کی طلب ہیں بلراج
کاش ایسا ہو کہ میں دردِ نہاں ہو جاؤں
بلراجؔ بخشی
۱۳/۳، عید گاہ روڈ ، آدرش کالونی،
اُدہم پور- ۱۸۲۱۰۱(جموں کشمیر)
موبائل نمبر؛ 09419339303
کرتا ہے بار بار وہ ہم سے جفا بہت
آئی ہے راس ہم کو یہ آب و ہوا بہت
قد اس کا میرے قد کے برابر نہ ہوسکا
وہ ایڑیوں پہ اپنی کھڑا بھی ہوا بہت
واقف نہ تھا میں حرفِ خوشامد سے دوستو
چڑھتا رہا خودی کا مجھے بھی نشہ بہت
یہ اور بات خود کو میسر نہ میں ہوا
اپنا ہی انتظار بھی میں نے کیا بہت
میں تری اور کوئی توجہ نہ کر سکا
مشغول اپنے آپ میں شاید رہا بہت
میں نے بھی اپنے خون کا سودا کیا سدا
تو نے لہو مری بھی رگوں کا پیا بہت
ہر موڑ پر بدلتا رہا رنگ راہبر
موسم سے میرے شہر کے تھا آشنا بہت
عادل ؔہوا کا شور بہت ہے مگر مجھے
جلتے ہوئے چراغ کا ہے آسرا بہت
اشرف عادل
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل سرینگر کشمیر
رابطہ 9906540315
اب وہ دل سے اُتر بھی سکتا ہے
وقت تنہا گزر بھی سکتا ہے
میری جانب نہ غور سے دیکھو
دل کا شیشہ بکھر بھی سکتا ہے
اوڑھ رکھی ہے اس نے خاموشی
وہ بظاہر مُکر بھی سکتا ہے
پارسائی پہ یوں نہ اِتراو
کوئی الزام دھر بھی سکتا ہے
وہ جو ڈوبا تھا اِس سمندر میں
پھر یہیں سے اُبھر بھی سکتا ہے
اب مسیحا اِدھر ہی آئے گا
زخم دل اب کے بھر بھی سکتا ہے
عشق جاویدؔ گر حقیقی ہو
وقت پھر سے ٹھہر بھی سکتا ہے
سردار جاوید خان
پتہ: مہنڈر، پونچھ
رابطہ؛ 9697440404
دلوں میں ہے جو وحشت ٹھیک ہے کیا؟
ذرا دیکھو امانت ٹھیک ہے کیا؟
ارادوں کی طبیعت ٹھیک ہے کیا؟
اشاروں کی یہ حالت ٹھیک ہے کیا؟
کوئی ان خاک کے ذرّوں سے پوچھے
ہوائوں کی یہ سنگت ٹھیک ہے کیا؟
چراغوں کا یہاں دَم گُھٹ رہا ہے
اُجالوں کی حراست ٹھیک ہے کیا؟
خزاں میںکیوں شگوفے پھوٹتے ہیں
بہاروں کی ہلاکت ٹھیک ہے کیا؟
رفاقت ظلمتوں کی ٹھیک ہوگی
اُجالوں سے عداوت ٹھیک ہے کیا؟َ
شُبہ فاروقؔ مجھ کو ہورہا ہے
بھلا ہونے کی عادت ٹھیک ہے کیا؟
فاروق احمد فاروقؔؔ
اقبال کالونی، آنچی ڈورہ،اننت ناگ
موبائل نمبر؛9906482111
یہ جو میدان، یہ کہسار نظر آتے ہیں
یہ بھی ہر غم میں گرفتار نظر آتے ہیں
یا الہی مِری اس قوم کی حالت کیا ہے؟
نوجواں کِن کے پرستار نظر آتے ہیں؟
کل تلک سارا جہاں جن کو مسیحا سمجھا
آج وہ کرب سے دوچار نظر آتے ہیں
جن کو دعویٰ تھا یہاں اپنی وفاداری کا
وہ بھی دشمن کے طرفدار نظر آتے ہیں
خون آلودہ ہوا پھر سے فلک ہر جانب
پھر کسی قتل کے آثار نظر آتے ہیں
خار ہی خار مِرے دل کی دْکاں میں ملتے!
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
حال ایسا ہے کہ غیروں سے کریں کیوں شکوہ
ہم سے اپنے بھی تو بیزار نظر آتے ہیں
اشتیاقؔ اپنا گریبان تو جھانکو پہلے!
کیوں تجھے لوگ خطاکار نظر آتے ہیں؟
اشتیاقؔ کاشمیری
آرونی اسلام آباد
رابط؛ 9906633828
مرے ہونٹوں پہ لوگو اک نئی سچی کہانی ہے
وہ سن کر ڈوب جائیں گی کہ جن آنکھوں میں پانی ہے
رہیں گے گھر کہاں محفوظ اب اس شہر میں یارو
یہاں بلوائیوں نے آگ ہر گھر کو لگانی ہے
تری خاطر میں سب کچھ کرچکا قربان اب کیا ہے
فقط اک جان باقی ہے سو وہ تم پہ لُٹانی ہے
میں اُس اجڑی ہوئی بستی کا باشدہ ہوں، تنہا ہوں
جسے ماضی میں کہتے تھے ہماری راجدھانی ہے
مراسم دوستوں سے اب کہاں؟ پہلے جو ہوتے تھے!
جہانِ نو کے شیدا وہ، مری دنیا پرانی ہے
نہیں ہے مجھ کو اب کوئی بھی غم طالبؔ زمانے کا
فقط دل کے دریچے میں غموں کی اک نشانی ہے
اعجاز طالبؔ
حول سرینگر،موبائل نمبر9906688498
درد کا رُک کے پھر رواں ہونا
ہے اذیت کا جاوداں ہونا
کب ہوئی خواہشات کی تکمیل
کب لکھا تھا انہیں جواں ہونا
ہم کہ پژمردہ دیکھتے ہی رہے
اپنی الفت کا رائیگاں ہونا
بے وفائی ہی جس کا شیوہ ہو
ایسے ظالم کا جانِ جاں ہونا
ہم کہ ٹھہرے اسیرِ دام فراق
اب نہیں ہم پہ مہربا ں ہونا
قاضی افروزہ منظور ؔ،بارہمولہ