وہ پیکرِ جمال لبِ بام نہ آیا
	جیسے اُفق پہ چاند سرِ شام نہ آیا
	ہم نے تو اُن پہ جان دی نکلے جو بے وفا
	کم بخت عشق بھی ہمارے کام نہ آیا
	سب رند پی کے بزم میں سرمست ہوگئے
	ہم ہیں کہ جن کے ہاتھ کبھی جام نہ آیا
	آتش زنی و کُشت و خوں، عصمت دری ہوئی
	لیکن کسی پہ کوئی بھی الزام نہ آیا
	مال اور جان و آبرو سب کچھ ہوا تباہ
	لینے کو اس کا کوئی انتقام نہ آیا
	ہیں بیچ کھاتے  قوم کو غدار ہر طرح
	کیا وقت اِن کو بخشتا انعام نہ آیا
	پامال کس قدر ہیں اب انسان کے حقوق
	دنیائے دوں کا اس پہ کچھ اقدام نہ آیا
	ہر سو ہو قہر و ظلم تورومانس کیا کریں
	اس کُشت و خوں میں عشق کسی کام نہ آیا
	باطل یہ کُشت و خوں کرے کھائے شکست حق
	الہام کبھی لے کے یہ پیغام نہ آیا
	ہوتا خفا ہی اس پہ یہ جہاں ہے اے بشیرؔ
	بن کر جو اِس کا بندئہ بے دام نہ آیا
	بشیر احمد بشیرؔ (ابن نشاط) کشتواڑی
	کشتواڑ،موبائل نمبر؛7006606571
	آج عقبیٰ میں خدا سے کہہ رہی ہیں بیٹیاں 
	آدمی حیوان ہیں بس جانور اچھا لگا
	کب ملے الفاظ کس کے جذبۂ دل کو یہاں
	لوگ جھوٹے ہیں کہاں یہ سوچ کر اچھا لگا
	ایک ہی پل میں کیا اُس کو ہوا نے سرنگوں
	وادیٔ گلپوش کا جو بھی شجر اچھا لگا
	کب تلک رہتا سلامت غمگساری کا بھرم
	دوستوں کا گھر بسانا چاند پر اچھا لگا
	کس قدر آغوش میں اپنے چھپایا ہے اُسے
	آہ! اس بھوکی زمیں کو جو گُہر اچھا لگا
	پھر رہاہوں دربدر گاہے اِدھر گاہے اُدھر
	کر گئی دیوانگی مجھ پہ اثر اچھا لگا
	فن نکھرتا ہے میرا راحتؔ تیری تنقید سے
	داد مت دینا مجھے تم کو اگر اچھا لگا
	رئوف راحتؔ
	سرینگر، موبائل نمبر؛9419626800
	عشق میں ایک کام ہوتا ہے
	صرف جینا حرام ہوتا ہے
	گھر کا رہتا ہے اور نہ گھاٹ کا وہ
	کام اس کا تمام ہوتا ہے
	جو بھی کرتا ہے اپنی لو میرج
	جورو کا وہ غلام ہوتا ہے
	آنکھوں آنکھوں میں عشق ہوتا تھا
	اب تو سیدھے کلام ہوتا ہے
	جتنا بدنام دنیا کرتی ہے
	اتنا ہی اپنا نام ہوتا ہے
	چوٹ کھاتے ہیں عشق میں جو لوگ
	ان کے ہاتھوں میں جام ہوتا ہے
	عشق کرنا رضیؔ عبادت ہے
	سب سے مشکل یہ کام ہوتا ہے
	ڈاکٹر رضیؔ امروہوی
	آباد مارکیٹ دودھ پور علی گڑھ
	موبائل؛9897601669
	منظر حیات سوزی کا دیکھا نہ جائے گا
	ہم سے تو گھر میں چین سے بیٹھا نہ جائے گا
	کٹ جائے سر بھلا سے جھکایا نہ جائے گا
	ظالم کو بے گناہ تو لکھا نہ جائے گا
	طوفان سر اُٹھائے کہ بجلی کوئی گِرے
	گُل کی ہنسی،  کلی کا چٹخنا نہ جائے گا
	مقتل سجائو تم کہ صلیبیں کھڑی کرو
	یہ انقلابِ وقت ہے روکا نہ جائے گا
	اچھا ہُوا کہ فکر نشیمن سے بچ گئے
	احسان بجلیوں کا بُھلایا نہ جائے گا
	اب بے قراریوں ہی سے شاید سکوں ملے
	آسودگی میں دِل کا تڑپنا نہ جائے گا
	دل کی جہاں ہے قدر نہ قیمت ضمیر کی
	اُس انجمن میںہم سے تو جایا نہ جائے گا
	کرنا ہے تشنگی کا مدا و اہمیں وحیدؔ
	چل کرکسی کے پاس تو دریا نہ جائے گا
	وحید مسافر
	باغات کنی پورہ،موبائل نمبر؛9419064259
	مسافرت کی کتاب لکھتا
	ترے سخن کا جواب لکھتا
	اگر یہ میرے ہی ہاتھ ہوتا 
	تو سب کی خاطر ثواب لکھتا
	مجھے اگر  لکھنا پڑھنا آتا
	میں ایک چھوٹا نصاب لکھتا
	جو دیکھے ہیں زندگی نے اب تک
	وہ سارے کے سارے خواب لکھتا
	کئے ہیں بےحد گناہ میں نے
	میں خود ہی خود کو عذاب لکھتا
	میں عشق کا ساز سنتا ہر دن
	میں اپنے حق میں رباب لکھتا
	نہیں کسی اور کو میں لکھتا
	میں جتنا خود کو خراب لکھتا
	کوئی تو ان کا پتہ بتا دے
	میں ان کے خط کا جواب لکھتا
	ہو یار تم کتنے خوبصورت 
	میں حسن لے کر شباب لکھتا
	کرم جو تم نے کئے ہیں بسملؔ
	اسی کا بس میں حساب لکھتا
	سید بسمل مرتضٰی
	شانگس اننت ناگ کشمیر 
	طالب علم :ڈگری کالج اترسو شانگس 
	9596411285
	ہاتھوں میں اس  کے  سارا یہ عالم تو گیر تھا
	پھر بھی غمِ زمان و مکاں میں اسیر تھا
	اک شہرِ طلسمات سے گُزرا میں رات بھر
	سُلطانِ عصر بھی تو وہاں پر حقیر تھا
	یہ کون نا مُراد ہے زمیں پہ تیغ زن
	تخلیق جو کیا تھا وہ روشن ضمیر تھا
	لو آ ج دیکھ خون کی ندیاں ہیں بہہ رہی
	کل تک یہ چارسو ہی تِرا بے نظیر تھا
	اک عشق ہی ہے جو ترا ابرِ مطیر ہے
	اک عشق ہی تھا جو ترا ابرِ مطیر تھا
	اک عقل تھی کہ راستہ واجدؔ بُھلا دیا
	اک دل یہ ہم نوا تھا، اکیلا مُشیر تھا
	واجدؔ عباس
	نوگام سوناواری، بانڈی پورہ
	فون نمبر  :  7006566516  
	عاشقوں کو حسرتِ دیدار تک پہنچا دیا
	اہلِ دل کو جرأتِ اظہار تک پہنچا دیا
	پوچھ لیتے کیوں غلطی ہم سے یہ سرزد ہوئی
	آپ نے تو کیفرِکردار تک پہنچا دیا
	سوچتا ہوں کیسے شکوہ میں کروں جلاد سے
	اپنی حق طلبی نے مجھ کو دار تک پہنچا دیا
	کب تلک رکھتے تھے پنہاں داستانِ دل حضور
	جو فسانے تھے انہیں سرکار تک پہنچا دیا
	پھر سرِ ساحل وہ اپنے منتظرہی رہ گئے
	جن کو آنا تھا انہیں منجدھار تک پہنچا دیا 
	عقیل فاروق
	طالبِ علم:- شعبہ اْردو کشمیر یونیورسٹی
	موبائیل نمبر:-8491994633