صحرا میں دھوپ اوڑھ کے بیٹھے ہوئے ہیں ہم
تشنہ لبی کی آنچ سے جھلسے ہوئے ہیں ہم
چہرے وہی لباس وہی شخصیت وہی
پر اپنے قول وفعل سے بدلے ہوئے ہیں ہم
کچھ سوچتے نہیں ہیں کسی مسئلے پہ اب
جذباتیت کے بحر میں ڈوبے ہوئے ہیں ہم
ثابت حقیقتوں کی طرف دیکھتے نہیں
مفروضہ داستانوں میں الجھے ہوئے ہیں ہم
اک روشنی سی رہتی ہے ہر وقت آس پاس
تاروں کا شہر گھوم کے آئے ہوئے ہیں ہم
ڈاکٹر شمس کمال انجمؔ
صدر شعبۂ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
موبائل نمبر؛9419103564
جیسے تمام تارے فلک پر فضا کے ہیں
انسان اس زمین پہ ایسے خدا کے ہیں
پھولوں میں تازگی ہے بہاروں میں نغمگی
یہ نقش نو بہار پہ دستِ صبا کے ہیں
محفوظ غم کی دھوپ سے یوں ہی نہیں رہے
سائے ہماری زیست پہ دستِ دعا کے ہیں
آواز کے وجود میں رقصاں ہے نغمگی
جسموں کے یہ گلاب تمہاری صدا کے ہیں
یہ زخم جو لگے ہیں تخیل کی شاخ پر
یہ پھول جو کھلے ہیں اسی بے وفا کے ہیں
غالبؔ کہاں ہے، میرؔ کدھر ،داغؔ ہے کہاں ؟
انسان اس زمین پہ امانت قضا کے ہیں
عادلؔ ٹپک رہا ہے ہنر سے بھی اب لہو
یہ زخمِ روح حرف پہ دستِ حنا کے ہیں
اشرف عادل ؔ
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل
سرینگر ،رابطہ 9906540315
یہ کیسا غم ہمارے روبروٗہے
پڑا خالی ہر اک جام و سبوٗ ہے
ترے ہوتے ہوئے بھی آج کیسا
ترے اس شہر میں ہر جا لہوٗ ہے
یہ شیخ و شاب کب سے دوڑ میں ہیں
سبھی پیچھے تو آگے رنگ و بوٗ ہے
نہ تھی جو سمت ،تب بھی اشک و خوں تھا
جو ہے ، اب بھی یہاں بس اشک و خوں ہے
نہ ذوق و شوق ہے ، نا سازو ساماں
تڑپتی جا رہی یہ آبِ جو ٗ ہے
اُسی دن کی ہماری جستجوٗ ہو
کہ جس دن کی ہماری آرزوٗ ہے
نہیں واجدؔ کوئی فرعون و آذر
مگر یہ وقت پھر بھی ہو بہو ٗ ہے
واجد عباس
نوگام سوناواری،بانڈی پورہ،فون نمبر: 7006566516
میں خواب کی کچھ اسطرح تعبیر کرونگا
روشن ستاروں سے جہاں تعمیر کرونگا
جو بات کبھی رُوبرو میں کہہ نہ سکا ہوں
روداد وہی خط میں سب تحریر کرونگا
ہے چودھویں کا چاند مگر جاگ رہا ہوں
کل خوبصورت رات کی تشہیر کرونگا
یہ رسّم تو اس شہر میں کچھ عام ہوئی ہے
اب میں بھی کسی بزم میں تقریر کرونگا
اس شہرِ خرافات سے اب کوچ ہے بہتر
صحرا میں جاکے گھر کوئی تعمیر کرونگا
مجھ کو نہیں اس عالمِ بے بس کی ضرورت
میں آپکے ہی نام سب جاگیر کرونگا
تھا خوابِ تغافل میں محو میں بھی مسافرؔ
اب روز و شب کی پھر نئی تفسیر کرونگا
قریشی وحید مسافرؔ
باغات کنی پورہ نوگام،موبائل9419064259
لبِ شیریں بھی ہے اور تلخی لفظ و بیاں بھی ہے
نہیں نا مہرباں خالی ذرا سا مہرباں بھی ہے
نہ ہو مغرور اتنا، حُسن تو ہے چارہی دن کا
بظاہر اس جوانی میں تری پیری نہاں بھی ہے
سمے کے ساتھ انسانوں میں بھی بدلائو آتے ہیں
برائی کرنے والے میں بھلائی کا گماں بھی ہے
فنا ہوجائیگا سب کچھ رہیگا کیا یہاں باقی
تمہاری زندگی کو کیا بقائے جاوِ داں بھی ہے؟
میری تو عمر گزری فکر میں تیری مگر تم بھی
کبھی تو پوچھ ہی لیتے کہیں دردِ نہاں بھی ہے
نہ کر ہر گز کبھی خورشیدؔ شکوہ زندگی کا تو
اسی کے دم سے یہ دنیا ہے اور پھر وہ جہاں بھی ہے
سید خورشید حسین خورشیدؔ
چھمکوٹ کرناہ
موبائل نمبر،9596523223
خواب دیکھوں تو فقط جلتے ہوئے گھر دیکھوں
شہر کے سارے چوراہوں پہ کٹے سر دیکھوں
کیسی جنت ہے؟ جہنم کے نظاروں جیسی!
اپنی جنت کو اگر ذات سے ہٹ کر دیکھوں
میں اُسے دیتا رہا شہر محبت کی مثال
وہ بضد تھا کہ میں اُجڑے ہوئے گھر دیکھوں
حق و انصاف کی چھائوں کے وہاں کیا معنی
آگ برساتے جہاں سر و وصنوبر دیکھوں
دل پھٹا جاتا ہے نفرت کی فضاء سے میرا
جب بھی انساں یہ جھپٹتے ہوئے اجگر دیکھوں
میرے طالبؔ تو وفائوں کی وہاں بات کرے؟
لعل و جوہر بھی جہاں کہتے ہیں کہ زر یکھوں
اعجاز طالبؔ
جعفر بیگ حول سرینگر،موبائل نمبر،9906688498
یہ کیسی دنیا داری ہے
ہر شخص یہاں بیوپاری ہے
مصروف یہاں ہر کوئی ہے
کیا بات میری تمہاری ہے؟
بکتا ہے یہاں بازاروں میں
بس جھوٹ، ریا، مکاری ہے
سستا ہے بہت انسان کا خوں
مہنگی ہے اگر، ترکاری ہے
اب کون پھنسے گا چنگل میں؟
لو آج منیؔ کی باری ہے
ہریش کمار منیؔ بھدرواہی
موبائل نمبر؛9596888463