مشکل غم حیات کی آسان کر چلے
	مٹی میں دفن  خواہش و ارمان کر چلے
	جس نے اذیتوں کے سوا کچھ نہیں دیا
	ہم ہیں کے اس کے نام دل و جان کر چلے
	شاید تمہیں خبر ہی نہیں انکا کیا ہوا
	کچھ لوگ تھے جو خود کو خدا مان کر چلے
	نفرت بھری نگاہ سے دیکھا کیے سبھی
	گویا  کہ  ہم ہی شہر کو ویران کر چلے
	آنکھوں سے تیری یاد کے موتی بکھر گئے
	رو رو کے اپنے گھر کو بیابان کر چلے
	کہہ دو امیرِ شہر سے ہم اجنبی فقیر
	تم کو گدا گری کا ہنر دان کر چلے
	جاویدؔ جن کی یاد میں دیوان لکھ دیا
	کہتے ہیں ہم پہ کون سا احسان کر چلے
	سردار جاوید خان 
	مینڈر، پونچھ
	رابطہ؛ 9697440404
	شمع جب بھی ہوا بجھاتی ہے 
	روشنی دل کی لڑکھڑاتی ہے 
	تم گریبان چھوڑ دو میرا 
	اب ضرورت مجھے بلاتی ہے 
	جینے دیتا نہیں اجل کا غم 
	زندگی جب سکون پاتی ہے 
	موت کے دن قریب ہیں لیکن 
	پھربھی تقدیر آزماتی ہے 
	مال و زر کی نہیں طلب ہم کو 
	ایک مجبوری یوں جھکاتی ہے 
	واہ ہردل سے ہی نکلتی ہے 
	جب کرشمہ غزل دکھاتی ہے
	کس قدر خوش نصیب ہے ساحل 
	زندگی دکھ میں مسکراتی ہے۔
	مراد ساحل 
	ممبئی ، مہاراشٹرا
	کچھ ایسے مرحلوں سے گزارا گیا ہے چاند
	دھرتی پہ کئی بار اُتارا گیا ہے چاند
	مدت ہوئی دیکھا نہ گیا آسمان پر
	شاید بغاوتوں پہ اُبھارا گیا ہے چاند
	پہلے تو اختتام مہینے کا تھا مگر 
	اب چودھویں کی رات میں مارا گیا ہے چاند
	یا اسکی شکل چاند سے ملتی ہے ہوبہو
	یا ہوبہو اس شخص پہ سارا گیا ہے چاند
	حسرت بھری نگاہوں کی تسکین کیلئے 
	پھر بام پہ آنے کو پکارا گیا ہے چاند
	صدقہ تیرا اُتار کے تارے بھی خوش ہوئے
	کہتے تھے ایک چاند پہ وارا گیا ہے چاند
	دانشؔ اب اختیار میں کچھ بھی نہیں رہا
	چُھٹی پہ بہت دور ہمارا گیا ہے چاند
	سید وقار دانش
	سید بستی سرفرا ئوکنگن،رابطہ نمبر7298762449
	تارا مرے نصیب کا بےنور ہوگیا
	اپنوں کی ہر نگاہ سے میں دور ہوگیا
	لُوٹا ہے جیسے جیسے تری دید نے مجھے
	ویسے میں تیرے شہر میں مشہور ہوگیا
	دھوکا دیا نصیب نے مجھ کو ہے ہر جگہ
	اب تجھ کو چھوڑنے پہ میں مجبور ہوگیا
	آیا جوں تیرے شہر میں، سب کچھ گنوا دیا
	میں ایک شہنشاہ سے مزدور ہوگیا
	آوارہ کر دیا ہے تیرے ہجر نے مجھے
	اور چلتے چلتے پاؤں میں ناسور ہوگیا
	گُھٹ گُھٹ کے لکھ رہا ہوں تیرے نام ہر غزل
	میرے قلم کا اب یہی دستور ہوگیا
	سید بسملؔ مرتضیٰ
	شانگس اننت کشمیر 
	طالب علم :ڈگری کالج اترسو شانگس
	موبائل نمبر؛9595411285
	دل سوختہ تھا اپنا یہی حسب حال تھا
	جیتے جی خوش کہاں تھے کہ جینا محال تھا
	ــــــــــــکرنے گئے تھے ان سے تغافل کا ہم گلہ
	لیکن انہیں بھی ہم سے عجب سا ملال تھا 
	ہر اک ادا تھی پیاری کہ جاں سے عزیزتھی
	پر جو ستم کیا تھا وہ جاںپروبال تھا
	تقدیر اپنی بدلی نہ ان پر اثر ہوا 
	ہم نے سناہے لوگو ں سے اچھا یہ سال تھا
	وہ کیا سے کیا ہوئے ہیں مگر یاد آتے ہیں 
	وہ دن کہ جب انہیں کبھی مرا خیال تھا 
	یہ سب شفق کا فیض ہے راشکؔ کہ مجھ میں یوں
	پہلے کبھی نہ ایسا یہ مجھ میں کمال تھا 
	راشک ؔاعظمی
	طالب علم شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی ،7963677969
	کِیا کرتا  وہ آنکھوں  سے شرارت ہے 
	اُسے تو دِل چُرانے میں مہارت ہے
	چرا لیتا ہے جس پر بھی نظر ڈالے 
	وہ کرتا بس مُحبت کی تجارت ہے 
	غموں نے اُس کو ہے گھیرا بہت لیکن
	ابھی تک بھی بڑی اُس میں جسارت ہے 
	نہیں ملتا کوئی سایہ یہاں پر اب 
	بہت ہی بڑھ گیا درجہ حرارت ہے
	 بنا بولے ہی سب کُچھ لُوٹ لیتا ہے 
	منیؔ محفل کی کرتا جب صدارت ہے
	ہریش کمار منیؔ بھدرواہی
	موبائل نمبر؛9596888463