اس طرح زندگی گزار آئے
اب کسی پر نہ اعتبار آئے
اپنی آواز لوٹ آئی ہے
ہم گلی میں کسے پکار آئے
ایک چہرہ ہی آج لائے ہو
ایک چہرہ کہاں اتار آئے
سنگدل ہو گئی زمیں ایسی
دھول اٹھے نہ اب غبار آئے
ہم کہ موسم کی دسترس میں نہیں
اب خزاں آئے یا بہار آئے
داستاں اپنی جب سنی بلراج
اشک آنکھوں میں بار بار آئے
بلراج بخشی
۱۳/۳، عید گاہ روڈ ، آدرش کالونی،
اُدہم پور- ۱۸۲۱۰۱(جموں کشمیر)
Mob: 09419339303
email: [email protected]
گل تو سارے گل ہوئے ہیں ، غم کدہ سارا وطن
دل فگاری بلبلوں کی، گونج ہے ہائے چمن
ہے سراسیمہ طبیعت اُن کو دیکھے بن مری
ہے سماں ایسا لگا ہو، چاند کو جیسے گہن
گر لہو سے پیرہن سارا ہوا ہے تر بہ تر
پر مہکتا ہے تمہارا آج خوشبو سے بدن
خاک کے جُز بھی نہ ہوں گے، میل بھی ہوگا نہیں
روز ِمحشر بھی اگر دیکھا گیا اُن کا کفن
تب پتنگے ہوں گے رسوا احتسابِ جشن میں
جب سمیٹے گی خیالی شمع دفترِ انجمن
کیا نظر آئے گی ان کو داستانِ دردِ دل
چشم ان کی دیکھتی ہے بس بدن پر پیرہن
زندگی تاریکیوں میں گھِر چکی ہے یاس کی
کب چھٹیں گے کالے بادل، صاف ہوگا کب گگن
کیوں توقع ہو کسی سے، رہنما ہوکوئی کیوں
ہر تصوّر بس زیاں ہے، ہر نظر ہے دل شکن
ڈاکٹر مظفر منظور، اسلام آباد کشمیر
Mob: 9906519996
سبز گلیوں میں جو دیکھی آنکھ نے لالی بہت
ہر کسی موسم کی لگتی ہے فضا کالی بہت
ہر کسی کی آنکھ میں اِک عزم پھیکا سا ملا
اپنے جزبوں کی سدا ہوتی ہے پامالی بہت
کل کوئی بیٹا جو سویا نیند گہری اِس قدر
ماں کی آنکھیں آنسوؤںسے ہوگئیں خالی بہت
اپنے دامن کو بچانے کیلئے اُس محل میں
سوختہ پھولوں سے ہارا ہے اُدھر مالی بہت
تیری خاطِر آرزو کا احترامِ من ہوا
تیری الفت میں کبھی خود ہوگیا جعلی بہت
شام کی اندھیریوں میں سال بھر کا کرب تھا
رات کی وُسعت میں پھیلی اپنی بدحالی بہت
دیکھنا اِک روز اُس کی ساری اُلفت اِس طرف
میں سمجھتا ہوں خُدا کی رحمتِ عالی بہت
ایک ہے تیمورؔ بزمِ دوستاں میں مضطرب
ایک دوشیزہ ہے غم، بھولی بہت بھالی بہت
تیمورؔ خان
اوٹنگرو ہندوارہ
9622511809
میں خود سے دور ہوتا جا رہا ہوں
بہت مجبور ہوتا جا رہا ہوں
میں سب کچھ ڈوب لے جائوں گا اک دن
میں اک نا سور ہوتا جا رہا ہوں
کسے پر وا میر ی شوریدگی کا
فقط مستور ہوتا جا رہا ہوں
یہاں میں مٹ رہا ہوں، بن رہا ہوں
کہ یوں دستور ہوتا جا رہا ہوں
بجائے خود میری ہر آہ سولی
میں تو منصورؔ ہوتا جا رہا ہوں!
واجد عباس
نوگام سوناواری، 7006566516
میں خود سے دور ہوتا جا رہا ہوں
بہت مجبور ہوتا جا رہا ہوں
میں سب کچھ ڈوب لے جائوں گا اک دن
میں اک نا سور ہوتا جا رہا ہوں
کسے پر وا میر ی شوریدگی کا
فقط مستور ہوتا جا رہا ہوں
یہاں میں مٹ رہا ہوں، بن رہا ہوں
کہ یوں دستور ہوتا جا رہا ہوں
بجائے خود میری ہر آہ سولی
میں تو منصورؔ ہوتا جا رہا ہوں!
واجد عباس
نوگام سوناواری، 7006566516
خواب۔۔۔
کیا تم بھی
راتوں کو خواب دیکھا کرتے ہو؟
کیا تم بھی
امن کے تارے شمار کرتے ہو
کیا تم بھی
خوابوںکی بارش میں بہا کرتے ہو
کیا کسی کے خواب میں
تیری آنکھیں بھی برس جاتی ہیں
کیا تم بھی
کربلا کے صحرا میں سفر کرتے ہو
کیا تم بھی
عذابوں کی بستی میں جیا کرتے ہو
کیا تم بھی
ہر وقت وصل کی دعا کرتے ہو
اگر یہی حق ہے
تو ان تمام خوابوںکی شہہ رگ نوچ کر
کسی گہرے چاہ میں ڈال آو
کہ یہ خواب
نہ چین سے جینے دیتے ہیں نہ مرنے
کمبخت یہ خواب،لس خار بن کر
کشمیر کی کھوکھ کو لہو لہان کرتے ہیں۔۔۔!!!!
سہیل سالمؔ
رعناواری سرینگر
رابطہ نمبر9103654553
سانحہ کٹھوعہ
انسانیت کیا آج شرمسار ہو گئی
ہر شئے کہ کائنات کی بے زار ہو گئی
حیران فرشتے ہیں، پشیمان زمانہ
ہر اک صدا ہماری ہے بے کار ہو گئی
دنیا کے بُت کدوں میں بڑا شور مچا ہے
آواز تیز و تند تھی بے کار ہو گئی
اُلفت و شفقت کا زمانہ ہوا رخصت
وہ شوق کی لیلیٰ بھی اب سنگسار ہو گئی
افسوس تار تار ہوئی عصمتِ معصوم
ہر آنکھ دیکھ کر یہ اشکبار ہو گئی
آواز دو انسان کو انسان کہاںہے؟
شرم و حیاء کی باڑھ تھی مسمار ہو گئی
وہ آنکھ جو کہتی ہے حقیقت نہیں ہے یہ
وہ آنکھ بہرحال گنہگار ہو گئی
قاسم سجادؔ ۔۔۔اسلام آباد
فون نمبر9419502125