سرپھرا اِک حباب باقی ہے
رُخ پہ جس کے نقاب باقی ہے
اوڑھ لی ہے زمیں جوانوں نے
آسمانِ شباب باقی ہے
نکتہ چیں ہیں برادرِ بطنی
کیا ابھی انتخاب باقی ہے؟
ہم عبث کیوں ڈریں اندھروں سے
با خُدا آفتاب باقی ہے
کیا پُرانے وہ زخم کم تھے، جو
دردِ آگیں عذاب باقی ہے
بس کڑکنے سے دل بہلتا ہے
بجلیوں کی کتاب باقی ہے
بیچ کھایا جسے شریفوں نے
اُس زمیں کا حساب باقی ہے
نیند آنکھوں سے ہو گئی اُوجھل
سویا سوسیا سا خواب باقی ہے
کام دل کا تمام کرکے بھی
خانۂ بیچ و تاب باقی ہے
کاش ابرارؔ خِشت ہی ہوتا
راہِ الفت کی داب باقی ہے
خالد ابرارؔؔ
وہی وقت ہوگا وہی رات ہو گی
جہاں دلربا سے ملاقات ہو گی
زمیں آسماں کے جدائی کے قصے
سنانے لگے ہیں یہی بات ہو گی
کہ آئیں گے طوفان بن کر وہاں بھی
جہاں آنسوئوں کی وہ برسات ہو گی
وہ چہرہ کتابی رہے گا مرے سنگ
کہ پڑھنے کی شاید حسیں رات ہو گی
وہ سوئے لپٹ کے چراغوں سے فانیؔ
مجھے کیا خبر تھی یہ ہی بات ہو گی
فانی ایاز احمد گولوی
ضلع رام بن
موبائل نمبر؛9596606391
ملنےتم سےصنم آپ کےشہر میں
آگئے آج ہم آپ کے شہرمیں
گر بُلاؤ گے تم دیکھنا آؤنگا
چل کےالٹے قدم آپ کےشہرمیں
خونِ دل سے لکھوں عشق کی داستاں
ہو مرا سر قلم آپ کے شہر میں
تم سے کوئی بھی شکوہ ،شکایت نہیں
ہے مگر آنکھ نم آپ کے شہر میں
چھوڑ کر اب نہ جاؤنگا میں آپ کو
میں نے لی ہے قسم آپ کے شہر میں
اک نہ اک دن ملاقات ہوجائے گی
آتے رہتے ہیں ہم آپ کے شہر میں
تجھ سے ، کاشفؔ یہ آئیگا، دیکھنا ؟
ملنے، رب کی قسم آپ کےشہرمیں
اظفر کاشفؔ پوکھریروی
طالب علم :MANUU ،بی ایڈ کالیج بڈگام