حنا میں دستِ صبا پر رچانے آیا ہوں
کلی کی آنکھ میں کاجل لگانے آیا ہوں
جہانِ عشق میں ہلچل مچانے آیا ہوں
نگاہِ یار میں دنیا بسانے آیا ہوں
مجھے حیات کا سودا نہ راس آیا ہے
تری دکان سے خود کو اُٹھانے آیا ہوں
مجھے خبر ہے اندھیروں کا ہے سفر مشکل
تمہاری رات میں مشعل جلانے آیا ہوں
جفا سے کس کا بھلا ہو چکا ہے دنیا میں
وفا کے پھول چمن میں کِھلانے آیا ہوں
اُٹھو اُٹھو نہ کرو دیر آنکھ تو کھو لو
مسافرِ شبِ غم کو جگانے آیا ہوں
قلم پہ اتنا بھروسہ تو ہے مجھے عادل ؔ
ہنر کے تاج محل میں بنانے آیا ہوں
اشرف عادلؔ
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل
سرینگر کشمیر ،رابط 9906540315
مرے اجداد کا قصہ ہی دہرایا نہیں جاتا
کبھی تاریخ کا وہ دور دکھلایا نہیں جاتا
میں اپنے حال کو مجرم نہیں ٹھہراؤں گا جب تک
مرے ماضی کو میرے سامنے لایا نہیں جاتا
بڑھاتے جا رہے ہیں فاصلہ دونوں ہی مل جل کر
میں جایا نہیں جاتا انہیں آیا نہیں جاتا
کسی بھٹکے مسافر کو بھی ہم مہمان کہتے تھے
مگر اب دوست کو بھی گھر میں ٹھہرایا نہیں جاتا
فسادوں میں اُجڑنے والے کب آباد ہوتے ہیں
دلوں کو جوڑنے کا پُل تو بنوایا نہیں جاتا
یہ کیسی جنگ جاری ہے کہ دونوں سمت ماتم ہے
کسی کی جیت کا پرچم ہی لہرایا نہیں جاتا
حدوں کو پار کرکے ہم وہاں تک بھی گئے بلراجؔ
جہاں پر روشنی کے بِن کبھی سایا نہیں جاتا
بلراج ؔبخشی
۱۳/۳، عید گاہ روڈ ، آدرش کالونی، اُدہم پور- ۱۸۲۱۰۱(جموں کشمیر)
موبائل نمبر؛ 09419339303
تجھے پاسکوں نہ لیکن تیری جستجو ہے پھر بھی
مری حسرتوں کی قائم رہی آبرو ہے پھر بھی
اُسے یہ گلہ تھا غارت ہے سکوں میری وجہ سے
میں نکل چکا وہاں سے مگر ہا وہو ہے، پھر بھی
مری مہ جبیں نہ اوڑھو کبھی بادلوں کا آنچل
بھلے دوریاں ہوں کتنی، توُ تو روبرو ہے پھر بھی
شبِ تارکے یہ گیسو ہیں لپٹ کے چاندنی سے
ہیں خموشیاں و لیکن کوئی گفتگو ہے پھر بھی
تری قربتیں جلاکے مجھے چھوڑ دینگی آزادؔ
مری جانِ سوختہ کو یہی آرزو ہے پھر بھی
آزاد ؔشوکت حسین ملک
زلنگام کوکرناگ،9596181278
زمیں دیکھو خون سے ہے لال ہوئی
اِ دھر انسانیت ہے بد حال ہوئی
بہت مشکل ہے ہوا جینا یہاں اب
بہت مہنگی آج سبزی دال ہوئی
کوئی حل تو آج غُربت کا نکا لیں
اسی واسطے خاص قیل و قال ہوئی
قدم جن کے تیز تھے اکثر بہت ہی
کیونکر اب سست اُن کی چال ہوئی
مصیبت نے گھیر تجھ کو بھی لیا ہے
منیؔ تیری ز ندگی جنجال ہوئی
ہریش کمار منیؔ بھدرواہی
موبائل نمبر؛9596888463
اُڑ گیا ہے رنگ سارا اِس حسیں تصویر سے
جو نگاہوں میں بسائی تھی دمِ کشمیر سے
بند دروازے ہوئے نطق و بیاں کے ہیں مگر
زخم دل کے کُھل گئے ہیں درد کی تاثیر سے
خواب دیکھے ہیں بہت، اُمید بھی قائم ہوئی
پھر نہ جانے خوف کیوں ہے خواب کی تعبیر سے
ہونہ جائے شب کی تاریکی میں گُم، یہ سوچ لے!
جو سماں باندھا ہے ہم نے سوچ کر تدبیر سے
زخم خوردہ جِسم میں دل اور جگر تابندہ ہیں
کیا تعلق بن گیا ہے اب کمان و تیر سے!
کس قدر گہرے سمندر میں سکینہ ؔہے کھڑی
کوئی پوچھے میری آنکھوں کے برستے نیر سے
سکینہؔاختر
کرشہامہ کنزر ٹنگمرگ،9622897729
گلشن میں ویرانے یاد آئے، موسم ہے سُہانا بھول گئے
لوگوں کو ہنسانے نکلے تھے آنسوں ہی چُھپانا بھول گئے
لوگوں سے کہا کرتے تھے ہم یہ عشق ہے آگ کا اِک دریاء
جب آگ لگی تو ایسی لگی دامن ہی بچانا بھول گئے
معلوم تھا اُس کے ہاتھوں میں خنجر ہے ہماری ہی خاطر
جب اُس نے بڑھ کر وار کیا ہم سر بھی ہلانا بھول گئے
اُن جھیل سی آنکھوں میں یارو! ساگر تھا عجب سا کیا کہئے
ہم پیاس کے مارے،ڈوب گئے اور خود کو بچانا بھول گئے
ہم کر کے ضبط تو بیٹھے تھے، وہ پردے سے باہر کیوں آئے؟
سب تاب و تو نگر ٹوٹ گیا اور دل ہے دیوانہ بھول گئے
کچھ ہجرنے توڑا شادؔ مجھے کچھ وصل میں بھی بیتابی تھی
پھر مل کے گلے ہم یوں روئے دیکھا تو زمانہ بھول گئے
مشکور احمد شادؔ
لونٹھا ٹنگڈار کرناہ، 9906825373