مری نظر کو مہکتے گلاب کیا دو گے
کہ نیند دے نہ سکے تم تو خواب کیا دو گے
میں خود دکھاؤں گا دکھتی رگیں کہاں ہیں مری
جو تم بتاؤ کہ اب کے عذاب کیا دو گے
تمہارے پاس تو آ جاؤں جی کڑا کرکے
سوا تپش کے تم اے آفتاب کیا دو گے
شمار لمحوں کا تفصیل بیتی گھڑیوں کی
غروبِ شامِ تمنا حساب کیا دو گے
یہ خامشی بھی عجیب امتحان ہے بلراجؔ
سوال ہی نہیں کوئی جواب کیا دو گے
بلراج ؔبخشی
۱۳/۳، عید گاہ روڈ ، آدرش کالونی، اُدہم پور- ۱۸۲۱۰۱(جموں کشمیر)
موبائل نمبر؛ 09419339303
email: [email protected]
چاند کوئی ہوگیا اور کوئی ہالہ ہوگیا
دور میری دسترس سے ہر نوالہ ہوگیا
ایک سورج ڈھونڈھ لیں گے وادیٔ ظلمات میں
اب اگر ناراض ہم سے پھر اُجالا ہوگیا
کچھ سمجھ آتانہیں کیسے یہاں کا ہر نفس
دیکھتے ہی دیکھتے ادنیٰ سے اعلیٰ ہوگیا
آج بھی قائم دلوں پر ہے حکومت رنج کی
ہم یہ سمجھے تھے کہ شاید صاف جالا ہوگیا
دل کا پیمانہ ہمارا کس قدر بے رنگ تھا
درد کی تاثیر سے رنگین پیالہ ہوگیا
کر دیا صحرانوردی نے مجھے بھی معتبر
کس قدر اب مستند میرا حوالہ ہوگیا
کیا یہ عجزو انکساری کا کوئی اعجاز ہے
ایک کنکر میرے چھونے سے ہمالہ ہوگیا
ہوگئے نایاب ایسے آپ میرے واسطے
وادیٔ کشمیر کا جیسے دوشالہ ہوگیا
آگ یہ کیسی لگی ہے چار سو کیسا دھواں
اے خدا کیوں خوبصورت شہر کالا ہوگیا
اے میرے ہمدم نہ پوچھو داستانِ غم میری
کیا کہوں کب کب میرا کیسے قبالہ ہوگیا
جل رہے تھے جب کسی نے حال تک پوچھا نہیں
راکھ راحتؔ ہوگئے تو بول بالا ہوگیا
رئوف راحت
روز لین ایچ ایم ٹی ، سرینگر،9149830023
بدلتے موسموں کا سامناہے
سُلگتی برف، زہریلی ہوا ہے
اُمڈتی پتھروں کی بستیوں میں
لبِ اظہار بے حرف و صدا ہے
گریںشاخوں سے غنچے راکھ بن کر
چمن پھر سازشِ بادِ صبا ہے
مکیںکوئی نہ ٹھہرے گا مکاں میں
درو دیوار پر لکھی سزا ہے
زمانے بھر میں ہم معتوب ٹھہرے
کہ حق گوئی ہماری ہی خطا ہے
برابر رنگ بدلے، جارہی ہے
وہی صورت جو آئینہ نما ہے
چنارِ وادیٔ کشمیر ہوںمیں
مرا سایہ بھی آتش زیرِ پا ہے
اجابت منتظر ہے دیکھئےتو!
کہیں اُٹھا کوئی دستِ دُعا ہے
سند مشہورؔ ہونے کی یہی ہے
مرا محبوب محبوبِ خدا ہے
محمد یوسف مشہور
کپوارہ، موبائل نمبر؛990624123
مرے خاموش رہنے کی وضاحت، کون کرتا ہے
چلو دیکھیں یہاں حق کی وکالت، کون کرتا ہے
یہاں اہلِ ہُنر کی آنکھیں میرے پاس ہیں گروی
مُجھی سے میرے عیبوں کی شکایت، کون کرتا ہے
یہاں طاری ہے ڈر انساں نُما خونی درندوں کا
وگرنہ اس طرح بستی سے ہجرت، کون کرتا ہے
تمہارے نام سے پیغام ملتے ہیں مجھے اب بھی
اگر تم بھول بیٹھے ہو شرارت ،کون کرتا ہے
تُو کانٹے لے کے خوشبو بیچتا ہے شہرِ خوباں میں
ارے پاگل! یہاں ایسی تجارت، کون کرتا ہے
ہیں کتنی بیٹیاں لٹکی ہوئی بدعت کی سُولی پر
سبھی ہیں طالبِ دولت بغاوت، کون کرتا ہے
بہت ہیں پُر اثر مانوسؔ کے الفاظ کی چیخیں
مگر بہروں کی بستی میں سماعت، کون کرتا ہے
پرویز مانوس ؔ
نٹی پورہ سرینگر ،موبائل نمبر؛ 9622937142
سب مراسم توڑ بھی سکتا ہوں میں
شہرِ جاناں چھوڑ بھی سکتا ہوں میں
کوئی رستہ جانب ِ منزل نہیں
یعنی رستہ موڑ بھی سکتا ہوں میں
جو بھرم توڑے ہیں میرے عشق نے
ہاں! انہیں اب جوڑ بھی سکتا ہوں میں
جن میں خوشبو کا نہیں نام و نشاں
پھول ایسے توڑ بھی سکتا ہوں
مجھ سے کوئی بھی توقع نا رکھو
اب تو سب جھنجھوڑ بھی سکتا ہوں میں
عشق کی جانب تھا جن راہوں کا رُخ
ان کا رُخ اب موڑ بھی سکتا ہوں میں
بت بنائے تھے جو خود میں نے عقیل ؔ
ان کو یکسر توڑ بھی سکتا ہوں میں
عقیل ؔفاروق
طالب علم شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی
موبائل نمبر؛8491994633
تو قائد ہے زمانے کا اگریہ ہو ادا تیری
فقط سر ہو تیرا ونچا زمیں پر ہونگاہ تیری
بنا ہے جو بڑا تو پھر سنبھل کر سیکھ بھی چلنا
زمانے بھر کو دِکھتی ہے ذرا سی بھی خطا تیری
تو کرتا ہے وکالت جب زمانے بھر کے لوگوں کی
خبر لے اپنے گھر کی بھی، ہے ماں تجھ سے خفا تیری
چمک تو اس ادا سے اب منوّر کر زمانے کو
زمانہ منتظر تیرا کہ کب چمکے ضیا تیری
عطا کر تو میرے آقا، ضیائیؔ کو بھی وہ دولت
نبیؐ کا عشق ہو دل میں زباں پر ہو ثنا تیری
امتیاز احمد ضیائیؔ
پونچھ، موبائل نمبر؛9697618435
جو گھبرایا ہمارا دل غزل لکھ دی
جو تھرایا ہمارا دل غزل لکھ دی
کبھی ہم پھول سے نکھرے چمن والو
جو مُرجھایا ہمارا دل غزل لکھ دی
جونہی چندا میرے آگے پڑا پھیکا
تو اِترایا ہمارا دل غزل لکھ دی
کبھی ہم کو اُداسی نے رُلایا ہے
جو مسکایا ہمارا دل غزل لکھ دی
کبھی ہم جیت کر ہاریں تو بس ہاریں
جو بھر آیا ہمارا دل غزل لکھ دی
کبھی نرمی ترک کرکے ہوئی بے جاں
جو پتھرایا ہمارا دل غزل لکھ دی
کبھی جو رافیہؔ یادیں بَنی خوشبو
جو مہکایا ہمارا دل غزل لکھ دی
رافیہ ؔرسول
ڈلگیٹ سرینگر
تمہارا نام لینا کام آیا
مجھے تکلیف میں آرام آیا
اسے دہشت کا مذہب کہنے والو
بھلائی کے لیے اسلام آیا
مجھے ہی کیوں گلہ ہو بے دلی کا
کسے اس دشت میں آرام آیا
نہ جانے کیوں میری آنکھیں ہوئیں نم
زباں پر جب تمہارا نام آیا
گیا تھا میں محبت کے نگر میں
وہاں سے ہو کے میں نیلام آیا
تمہیں تو فخر تھا یاروں پہ اپنے
کہو کون اب تمہارے کام آیا
فہیم اقبال
دو اننت ناگ کشمیر
موبائل نمبر؛7006402556
ہم سفر میرا ، وہی قاتل بھی تھا
بزم کی رونق شہِ محفل بھی تھا
ڈوب جانے کی تو تھی کچھ وجہ اور
اک سمندر ہی نہیں ساحل بھی تھا
عشق کی بازی پلٹ دی وقت نے
ورنہ دل قائل بھی تھا مائل بھی تھا
مت کرو اس بے وفا کا ذکر تم
جو نہیں اب میرا وہ حاصل بھی تھا
ساتھ چل کر بھی نہ میرا جو ہوا
اس سفر کا تو وہی حاصل بھی تھا
وہ سزاجو نام میرے کرگیا
اس گنہ پر پہلے وہ مائل بھی تھا
اعجاز طالبؔ
موبائل نمبر؛9906699498
ہیں خوب تمہارے ناز میاں
اُچھلو مت آوؤ باز میاں
ہم آہنگ لہجہ و جذبہ رکھ
تب پائے گا انداز میاں
ہو روح پہ طاری وجد یہاں
چھیڑ ایسا کوئی ساز میاں
اُلجھا نہ مجھے اب باتوں میں
تخییٔل ہے بَر پرواز میاں
ہر بات سے نکلے بات نئی
سیکھا یہ کہاں انداز میاں
شاید وہ کسی مشکل میں ہے
اس دل سے اُٹھے آواز میاں
توڑا ہے کسی نے دل تیرا
باتوں میں جو گداز میاں
میر خوشحال احمد
دلدارکرناہ ، موبائل نمبر؛9622772188
نعت رسول مقبولؐ
نہ بزم ِ گل نہ ستاروں کی انجمن میں رہے
ہے دل کو آپ سے نسبت تو کیوں چمن میں رہے
سما ہی جائے ہر اک دل میں ایسے عشق ِرسولؔ
بہ شکل نکہت ِگُل جاں کے پیرہن میں رہے
یہ آرزو ہے کہ آئے اجل مدینے میں
کہ میری خاک بھی شہرِ شہِ زمن میں رہے
اُڑاکے لائے صباکاش گرد یثرب کی
جو بن کے خاکِ شفاعت مرے کفن میں رہے
بوقت نزع زباں پر ہو میرے نعت نبیؐ
شمار میرا کنیزانِ پنجتن میں رہے
اگر ہو نعتِ محمد کا حق ادا کرنا
تو عکسِ سیرتِ احمدؐ ترے سخن میں رہے
ہے اسطرح سے عقیدت مجھے محمد ؐسے
کہ روح جسطرح میری مرے بدن میں رہے
کچھ اس طرح سے کہو نعت مصطفیؐ زرؔیاب
کہ شورِ صلے علی،ساری انجمن میں رہے
ہاجرہ نور زریابؔ آ کولہ مہاراشٹر انڈیا،موبائل نمبر9922318742