انسان کے ارمان کا ارمان ہے انساں
انسان کے ہی شر سے پریشان ہے انساں
دنیا سے کبھی دل سے پشیمان ہے انساں
غالب کا کبھی میر کا دیوان ہے انساں
احساس کے موسم کا دبستان ہے انساں
اخلاص کی ہر شاخ پہ خُوبان ہے انساں
کانٹوں کی طرح گل کا نگہبان ہے انساں
ظلمت کا کبھی نور کا اعلان ہے انساں
اک پھول یہی ہے یہی اک خارِ مُغیلاں
انساں کبھی انساں کبھی شیطان ہے انساں
انسان سے رشتہ بھی ہے انسان کا پختہ
ایثار کا جذبہ نہ ہو حیوان ہے انساں
کاسے میں جہاں اسکے چھلاوا ہی ہے عادل ؔ
یہ کون سی خیرات پہ قربان ہے انساں
اشرف عادل
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل سرینگر
رابطہ 9906540315
وہ سب کو دھوپ دھوپ سناتا ہوا ملے
کوئی درخت چھاؤں لُٹاتا ہوا ملے
جیسے مری شکست میںاس کا بھی ہاتھ ہے
جب بھی ملے وہ آنکھ چرُاتا ہوا ملے
لازم ہیں دوستی کے دو قدم ہمیں پہ کیوں
کوئی ِادھر بھی اک قدم آتا ہوا ملے
کب سے ہوں پرُ فریب حقیقت کا منتظر
کوئی تو سبز باغ دکھاتا ہوا ملے
اس کو کسی کا خوف نہیں ہے تو کم سے کم
اپنی نظر سے چھپتا چھپاتا ہوا ملے
رونے رلانے والے ہی ملتے رہے ہمیں
بلراجؔ کوئی ہنستا ہنساتا ہوا ملے
بلراجؔ بخشی
۱۳/۳، عید گاہ روڈ ، آدرش کالونی،
اُدہم پور- ۱۸۲۱۰۱(جموں کشمیر)، موبائل نمبر؛09419339303
email: [email protected]
تحریر حاد ثات نے کیا کیا نہیں کیا
پھر بھی کبھی نصیب کا شکوہ نہیں کیا
کس جرم کی سزا وہ سناتاہے آج تک
ہم نے کبھی زمین پہ قبضہ نہیں کیا
مانا کہ تنگ دست رہے عمر بھر بہت
لیکن کبھی ضمیر کا سودا نہیں کیا
اک پھول بن کے پھر سے کھلیں گے بہار میں
ہم کو ملا کے خاک میں اچھا نہیں کیا
شاید کہ مفلسی ہے میرا نام اسلئے
مجھ کو کسی نے شہر میں اغوا نہیں کیا
غائب ہوا غریب کا لختِ جگر کہیں
اب تک کسی نے چور کا پیچھا نہیں کیا
دہلیز سے فقیر کی اُٹھتا نہیں ہوں میں
در پے کسی امیر کے سجدہ نہیں کیا
کھولا نہیں کسی نے لبوں کو کبھی یہاں
میں نے بھی قتلِ عام کا چرچا نہیں کیا
راحتؔ رہی طلب نہ کبھی بھی عروج کی
خود کو کبھی زمین سے تنہا نہیں کیا
رئوف راحتؔ
روز لین ایچ ایم ٹی ، سرینگر،9149830023
دیکھنا باتیں ہیں کوئے یار کی
روح فرسا سُرخیاں اخبار کی
موسمِ گل میں کچھ ایسی لو چلی
کیا ریاں جل بجھ گئیں گلزار کی
دیکھ کر حیران ہے چشمِ فلک
آہ وزاری دیدئہ خونبار کی
پُل اگر ندیوں پہ ہوں تعمیر تو
خیر ہے اُس پار کی اِس پار کی
دل محبت سے جہاں معمور ہوں
کیا ضرورت درمیاں دیوار کی
گو مسیحائی تمہیں حاصل نہیں
خیریت تو پوچھئے بیمار کی
دوستوں کی محفلوں میں ہی سہی
دھوم ہے مشہورؔ کے اشعار کی
محمد یوسف مشہورؔ
کپوارہ،موبائل نمبر؛9906624123
ذرا کہہ دو یہ، طوفاں میں سنبھلنا ہم کو آتا ہے
بچھے ہوں خار راہوں میں تو چلنا ہم کو آتا ہے
جو چھینا ہے نِوالہ تو لگا ہم مر ہی جائینگے
مٹا کر بھوک پانی سے بھی، پلنا ہم کو آتا ہے
نہیںہے جیت تیری جو سروں سے چادریں چھینیں
کہ چہروں پہ لہو ہاتھوں سے ملَنا ہم کو آتا ہے
ہماری یہ نشانی ہے کسی کا حق نہ مارا ہے
نہ فطرت میں ہی دھوکہ ہے نہ چَھلنا ہم کو آتا ہے
زلیخا بن کے یہ دنیا جکڑلے ہم کو بانہوں میں
ہے عزمِ یوسفی ہم میں، نکلنا ہم کو آتا ہے
ارے ہم بھی تو شعلوں پہ عبادت کرتے آئے ہیں
فلک ہم اُس کے پروانے ہیں جلنا ہم کو آتا ہے
فلک ریاض
حسینی کالونی ۔چھتر گام،کشمیر
موبائل نمبرپ؛6005513109
لائحہ عمل
اس جہاں میںہے بُرائی بھی، بری صحبت بھی ہے
اِس نحوست سے ہمیں خود کو بچانا چاہئے
جُرم و عصیاں کی کثافت سے بچائیں خود کوہم
ہم کو تقویٰ کے گُلستان میں نہانا چاہئے
ہم سے ہے انسانیت کا یہ تقاضا دوستو
رُوٹھ جائے کوئی تو اُس کو منانا چاہئے
جن کے یاد آنے سے اپنا دل سدا مجروح ہو
ایسی باتوں کو سراسر بُھول جانا چاہئے
گھیر لے جب دل کو رنج و غم تو رکھو حوصلہ
گیت کوئی درد و غم کا گنگنانا چاہئے
زندگی میں درد و غم ہیں، مشکلیں، آفات بھی
ہم ہیں مُتوکّل نہ ہم کو لڑکھڑانا چاہئے
اہلِ دنیا سے چُھپائیں داغہائے دل کو ہم
اپنے خالق کو ہی رو رو کر سُنانا چاہئے
زندگی کی تلخیوں کو جو نہ بالکل سہہ سکے
ایسے بُزدل کو نہ پھر دنیا میں آنا چاہئے
زندگی میں جب فرائض اپنے سر پر آپڑیں
پھر خوشی سے ہم کو یہ سب کچھ نبھانا چاہئے
گر کوئی انصاف کی کُرسی پہ بیٹھے دہر میں
حق تو مظلوموں کو ظالم سے دلانا چاہئے
بشیر احمد بشیر ؔ(ابن نشاطؔ) کشتواڑی
موبائل نمبر؛7006606571
میرا گھر
درو دیوار خوشبو سے
معطر ہی معطر ہیں
اور ہر اک صبح تیری
مزّین شادمانی سے
مُحیط ہو بزم انجم پہ
کہ جیسے چاند کا ٹکڑا
ہو وہ سردی کی شدت
یا طوالت گرمیوںکی ہو
ہمیشہ سائیباں بن کر
دفاع کرتا ہے آندھی سے
مُنور ہے سحر اس کی
حسین ہر شام ہے اس کی
شجر اس کا، حجم اس کا
تھکاوٹ سے جو ٹوٹا ہو
تو راحت فرش ہے اس کا
پھیلاتا پَر ہے کچھ ایسے
تھکن کا نام تک کوئی
نہ رہتا دور تک باقی
طُفیل شفیع
طالب علم۔۔۔M.B.B.S
گورنمنٹ مڈیکل کالج سرینگر
کرفیو
کئی دنوں سے
کرفیو لگا ہوا تھا
پور پوربدن میں میرے
اترا ہوا تھا
کہسار کہ برف یا پھر سبزے کی چادر
اور چنار کے خوش رنگ پیڑوں نے
گھیر رکھا تھا چاند بدن کو
سیاہ رات ستاروں کی نیلگوں بارات
ادھر جھیل کے پانی میں سرسراتی ہوئی
ملگجی سی سحر
کہ غروب ہوتا ہوا آفتاب کا منظر
سب کے سب
میری آنکھ کے اندر
تیر رہے تھے انجان بطخوں کی طرح
کرفیو سے خوف ہے نہ ڈر مجھکو
کہ وہ منہ اٹھائے
کسی وقت بھی
میرے بدن میں
سماجایا کرتا ہے یونہی
رقیب نہیں دوست بن کر
رفتہ رفتہ
دامن بھگو جایا کرتا
درد کا اکثر
جھیل سے اٹھنے والی
بے تاب ہوائیں
سلا جایا کرتیں مجھکو
کرفیو آکر
پور پور بدن کو میرے
جگا جایا کرتا