ایک تتلی نے گلابوں سے شرارت کی ہے
اس پہ خوشبو نے ہر اک پھول سے ہجرت کی ہے
کہتے ہیں خار نے کلیوں کی تجارت کی ہے
حق یہ ہے پھول نے گلشن سے عداوت کی ہے
ہم نے تہذیب کے اوراق پہ لکھا ہے فقط
ہم نے اردو کے رسالوں کی ادارت کی ہے
ہم تو سورج کی طرح ڈوب گئے مغرب میں
ہم نے اخلاق کی قدروں سے بغاوت کی ہے
آنکھ کا سرخ ہوا رنگ شبِ غم کی قسم
آتشِ چشم نے ایسے بھی ریاضت کی ہے
آنکھ سے اشک کو بہنے نہ دیا کس نے، بتا ؟
چشمِ نم نے غمِ فرقت کی حفاظت کی ہے
کل سیاست پہ عنایت کی تھی ہم نے عادل ؔ
آج کچھ ہم پہ سیاست نے عنایت کی ہے
اشرف عادل ؔ
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛9906540315
میں نے کہا کہ زلف گرہ گیر کُھل کے ڈھانپ
اس نے کہا کہ بھاگ ڈسے گا یہ کالا سانپ
اس نے کہاکہ دیکھ میں عریاں لباس ہوں
میں نے کہا کہ چیتھڑوں میں لے مجھے بھی ڈھانپ
اس نے کہا کہ آؤ مسافت کو دیکھ لیں
میں نے کہا کہ گردِ سفر، آبلے تو بھانپ
میں نے کہا کہ پنکھڑی پہ اوس ڈال دوں
اس نے کہا کہ نخلِ نظر بوند بوند بھانپ
میں نے کہا کہ آئنے پہ عکس کر دھمال
اس نے کہا کہ رقص جما، ہاوہو پہ ہانپ
اس نے کہا کہ راہ میں سے راستہ نکال
میں نے کہا کہ راستے میں جابجا ہیں سانپ
میں نے کہا کہ درد سے شیداّؔ ہوا تمام
اس نے کہا کہ اور ذرا اور ذرا کانپ
علی شیدا
(نجدہ ون) نپورہ اسلام آباد کشمیر،موبائل نمبر؛9419045087
دم ساز اسیروں کے صیاد نہیں ہوتے
آرام طلب جو ہیں آزاد نہیں ہوتے
ہر جسم جُھلستا ہے سورج کی تمازت سے
کیوں باغ چناروں کے آباد نہیں ہوتے
اک حشر کا منظر ہے خوناب نگاہوں میں
اس خوف کے عالم میں دل شاد نہیں ہوتے
اے کاش یہاں زندہ ہوتی جو رواداری
آلات یہ زہریلے ایجاد نہیں ہوتے
خونخوار درندوں سے ہے خوف زدہ عالم
کیا بھیڑ میں لوگوں کی جلّاد نہیں ہوتے
ہم جیت اگر جاتے ہر کھیل مقدر کا
سب خواب ہمارے یوں برباد نہیں ہوتے
تعمیر کیا ہوتا جو باغِ اِرم ہم نے
ہم خاک ہوئے ہوتے شدّاد نہیں ہوتے
اس باغ میں گر ایسا طوفان نہیں آتا
یوں خاک بسر اتنے شمشاد نہیں ہوتے
پامال جو گُل ہوگا تو پھول بھی تڑپے گا
اے درد بتا یہ کیا ہمزادنہیں ہوتے
تا عمر رہے راحتؔیہ مشقِ سخن جاری
یوں مفت کسی فن میں اُستاد نہیں ہوتے
رئوف راحتؔ
روز لین ایچ ایم ٹی ، سرینگر،9149830023
شاخ سے ٹوٹ کر برگ نہیں بھٹکا
آسماں سے گرا کھجور میں اَٹکا
جس نے اپنی اَنا کبھی نہیں چھوڑی
وہ حقیقت کے پاس بھی نہیں پھٹکا
آئینے سے نہ سامنا کہیں ہوجائے
آدمی کو رہا سدا یہی کھٹکا
ہار آئی نظر کی موت کا منظر
خوفِ نادیدہ نے دیا بڑا جھٹکا
لوگ گل چیں کی بات جابجا کرتے
کوئی غنچہ اگر کہیں چٹکا
شعر کی شعریت وہی مشہورؔ
اور تو یوں یہاں وہاں مَٹکا
محمد یوسف مشہور
کپوارہ، کشمیر،موبائل نمبر؛9906624123
یہ کیا پل پل پہ طاری ہے
جنوں کی دستکاری ہے
بہت ہی بے قراری ہے
دو عالم دِلفگاری ہے
تمہا ری تاج داری ہے!
ہماری آہ وزاری ہے
ہمیں سے تم وفا چا ہو
ہمیں پہ شعلہ باری ہے
یہ تیری ہی خدائی ہے؟
بچھائی پردہ داری ہے
چمن میں گُل کِھلے کیسے
خزاں سب کا مداری ہے
زمین جو بے وفا نکلی
فلک سے سنگ باری ہے
خموشی کی عبادت میں
بُتوں کی آبیاری ہے
تغیّر عینِ ممکن ہے
جہاں تک جاںنثاری ہے
تَوَلد لا ز می ٹھہرا
قضا تو اختیاری ہے
واجدؔ عباس
سوناواری، بانڈی پورہ، 7006566516
اک نیا منظر بنانا چاہیے
درد و غم میں مسکرانا چاہیے
آپ پر ہی چھوڑتا ہوں یہ سوال
کیا کسی کا دل دُکھانا چاہیے
آخرت میں کامیابی کے لئے
اپنے خالق کو منانا چاہیے
آپ یوں روٹھے رہینگے کب تلک
آپ کو ا ب مان جانا چاہیے
دوستوں کی دوستی تو دیکھ لی
دوشمنوں سے دل ملانا چاہیے
سربلندی کی تمنّا ہے اگر
حق کی خاطر سر کٹانا چاہیے
جانتا ہوں آپ آئیں گے نہیں
آپ کو تو بس بہانا چاہیے
جن دلوں میں خوف ہے اللہ کا
کاشفؔ ان میںگھر بنانا چاہیے
اظفر کاشف پوکھریروی
متعلم :Manuu بی ایڈ کالج بڈگام سرینگر
9149833563
کس نے ستایا رات بھر
مجھ کو جگایا رات بھر
درد فراق یار میں
شب کو بِتایا رات بھر
رستہ ہوا روشن جبھی
دل کو جلایا رات بھر
محفل میں اسکے واسطے
خود کو بچھایا رات بھر
مستِ مئے پندارنے
ہمراہ بٹھایا رات بھر
قصہ فراقِ یار کا
دل کو سنایا رات بھر
شہزادہ فیصلؔ منظور خان
طالبِ علم،GMCسرینگر
موبائل نمبر؛8492838989
طلب ہے کیسی چبھن ہے کیسی، میں خود کو خود سے چُھپا رہا ہوں
عجب غضب ہے یہ لذتِ ،غم میں اپنی الجھن بڑھا رہا ہوں
نہ جانے کیسی ہے بے قراری، کوئی بھی حالت نہیں ہے طاری
عجیب حالت میں مبتلا ہوں خودی سے اب خوف کھا رہا ہوں
جدھر بھی دیکھوں اُدھر اذیت، نہیں ہے جینے کی کوئی حسرت
کہ دل کی دنیا اُجڑ چکی ہے، میں اپنا گھر بھی جلا رہا
نہیں ہے ممکن کہ دلگی میں بچھڑ کے دو دل سنبھل بھی جائیں
وہ اور بھی یاد آ رہا ہے، میں اسکو جتنا بُھلا رہا ہوں
تلاش جس کو میں کر رہا ہوں نہیں خبر ہے کہاں گیا وہ
بھٹک رہا ہوں گلی گلی میں، کہاں کدھر اب میں جا رہا ہوں
اگر کرے گا وہ ترکِ الفت عقیلؔ اس میں نہیں ہے حیرت
کہ بعد اُس کے جو زندگی ہو میں اُسکا پیکر بنا رہا ہوں
عقیل فاروق
طالبِ علم، شعبہ اُردو کشمیر یونیورسٹی سرینگر،
موبائیل نمبر:-8491994633
چہرہ تمہارا لگ رہا ماہِ تمام ہے
ہونٹوں سے خوب چھلکے محبت کا جام ہے
ہرنی سی تیری چال بڑی دِل فریب ہے
پُر فیض و پُرخلوص تیرا ہر کلام ہے
خوشبو ہے نمایاں تیری ہرسُو ہوائوں میں
پھولوں کی مہک میں تیرا ہی اہتمام ہے
تُم دور ہو کے بھی میرے دل کے قریب ہو
تیرے ہی انتظار میں تیرا غلام ہے
روشن ہیں تیرے نام سے مہتاب و آفتاب
اَرض و سماں کو آپ نے بخشا دوام ہے
تھوڑا سا وقت مانگ لے اُس بے نیاز سے
چاہت میں جس کی کھو گیا ہر خاص و عام ہے
لمحوں کا رہ گیا ہے سفر اب حیات کا
ہونٹوں پہ مظفرؔ کے تمہارا ہی نام ہے
حکیم مظفر حسین
باغبان پورہ لعل بازار،موبائل نمبر؛9622171322
نکھرا نکھرا ہے رنگ پھولوں کا
اب کے اچھّا ہے رنگ پھولوں کا
جیسے عارض پہ تیرے لالی ہے
بالکل ایسا ہے رنگ پھولوں کا
کچھ نہ کچھ بات تو ہوئی ہے جو
آج میلا ہے رنگ پھولوں کا
تیرے چہرے پہ بھی چمک سی ہے
جب سے نکھرا ہے رنگ پھولوں کا
لال، پیلا، سفید جُز اِس کے
اور کیسا ہے رنگ پھولوں کا
باغ میں جب سے تجھ کو دیکھا ہے
سہما سہما ہے رنگ پھولوں کا
لوگ تیری مثال دیتے ہیں
یعنی اچھّا ہے رنگ پھولوںکا
اِندرؔ سرازی
پریم نگرڈوڈہ،جموں و کشمیر
فون نمبر: 7006658731
اُسے چھوڑنا بھی چاہا، پر چھوڑا نہ گیا
چاہ کر بھی اسکا دل مجھ سے توڑا نہ گیا
کچھ پرواہ نہ تھی اُسے مجھ سے بچھڑ جانے کی
یہ جان کر بھی اس کا ساتھ چھوڑا نہ گیا
لوٹ آئے گاکسی روزوہ مجھ سے ملنے پھر یہاں
اس گماں سے آج تک مجھ سے دوڑا نہ گیا
میری ہستی کو کچھ اس ادا سے ہلا دیا اس نے
پھر سے جُڑ نہ سکا خود سے ، جوڑا نہ گیا
اس دل کے نہاںخانوں میںہے وہ شاید اب بھی
اس خیال سے دل کو اب تک پھوڑا نہ گیا
پرویز یوسفؔ
لکچرار گورئنمنٹ ماڈل ہائرسیکنڈری اسکول
چندوسہ بارہمو لہ ۔،فون نمبر9469447331;