دستِ عیار پہ بیعت نہیں کی جاسکتی
حسنِ فطرت سے بغاوت نہیں کی جاسکتی
ہم کو ہر گام پہ پتھر کے خریدار ملے
شیشۂ دل کی تجارت نہیں کی جاسکتی
یہ تو تہذیب کا ہے دور صدی امن کی ہے
اب حریفوں سے بغاوت نہیں کی جاسکتی
ورنہ محشر کی صدا عہد مرا دیتا ہے
حشر سے پہلے قیامت نہیں کی جاسکتی
بغض اور کینہ یہی کام شریفوں کا ہے
اب شریفوں سے شرافت نہیں کی جاسکتی
جن کے جلوؤں میں محبت کی تمنا بھی نہ ہو
ان پہ برباد بصارت نہیں کی جاسکتی
کوئی چھپ کر پسِ دیوار ہے بیٹھا عادل ؔ
سامنے والے سے حجت نہیں کی جاسکتی
اشرف عادل
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل سرینگر کشمیر
رابطہ؛ 9906540315
دستِ عیار پہ بیعت نہیں کی جاسکتی
حسنِ فطرت سے بغاوت نہیں کی جاسکتی
ہم کو ہر گام پہ پتھر کے خریدار ملے
شیشۂ دل کی تجارت نہیں کی جاسکتی
یہ تو تہذیب کا ہے دور صدی امن کی ہے
اب حریفوں سے بغاوت نہیں کی جاسکتی
ورنہ محشر کی صدا عہد مرا دیتا ہے
حشر سے پہلے قیامت نہیں کی جاسکتی
بغض اور کینہ یہی کام شریفوں کا ہے
اب شریفوں سے شرافت نہیں کی جاسکتی
جن کے جلوؤں میں محبت کی تمنا بھی نہ ہو
ان پہ برباد بصارت نہیں کی جاسکتی
کوئی چھپ کر پسِ دیوار ہے بیٹھا عادل ؔ
سامنے والے سے حجت نہیں کی جاسکتی
اشرف عادل
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل سرینگر کشمیر
رابطہ؛ 9906540315
غزل آج ایسی سنا جاؤں گا
سخنور سبھی کو بنا جاؤں گا
سنو دل پہ الفت میں گزری ہے کیا
صنم آج تجھ کو بتا جاؤں گا
میں روتا رہا اور تو ہنستا رہا
تجھے آج میں بھی رُلا جاؤں گا
بلا سے اگر تو نہ میرا ہوا
زمانے کو اپنا بنا جاؤں گا
بہت تہمتیں ہم پہ لگتی رہیں
میں الزام تم پر لگا جاؤں گا
مبارک تمہی کو تمہارا محل
میں بستر زمیں پر لگا جاؤں گا
پلایا زہر اور کہا چائے ہے
سیاست میں تیری مٹا جاؤں گا
ستایا ہے بسملؔ کو تم نے بہت
مگر آج تم کو ستا جاؤں گا
پریم ناتھ بسملؔ
مہوا، ویشالی۔ بہار
موبائل نمبر۔8340505230
ہر کوئی اس سے کِتنا پریشان ہے
روک لو آنے والا جو طُوفان ہے!!
آگ ہی آگ ہے ، اور یہ اہلِ جَنوں
کودتا ہے جو اس میں وہ نادان ہے
آگئے ہیں مُجھے راس یہ رنج وغم
مُدتوں سے مری ان سے پہچان ہے
حق و باطل میں کرتا نہیں فرق جو
ایسا اِنسان بھی کوئی انسان ہے
جس سے کوئی خطا بھی نہ سرزد ہوئی!
کیا کہیں کِس لئے وہ پشیمان ہے؟
ہے روبینہؔ اسی کا یہ گھر پھر بھی وہ
اپنے ہی گھر میں جیسے کہ مہمان ہے
روبینہ میر
راجوری،جموں وکشمیر
دِل یادوں میں کھویاکب سے
قدم قدم پررویاکب سے
وادی سے جو نِکلا ہُواہے
خاموشی سے رویاکب سے
یاد آتیں ہیں گُزری باتیں
دامن اپنا بھِگویا کب سے
کیا کہہ دوں اس بھنور میں ہم نے
کشتی کو ہے ڈبویا کب سے
یادوں کے اشکوں سے ہم نے
اِس چہرے کودھویا کب سے
مجھ کو کچھ اب یاد نہیں ہے
میں نے خود کو کھویاکب سے
اشکوں کو ہتاشؔ ہے ہم نے
پلکوں پر یہ پِرویا کب سے
پیارے ہتاشؔ
دور درشن لین، گاندھی نگر جموں
موبائل نمبر؛8493853607
پرانے خواب کی پھر سے نئی تعبیر لکھتے ہیں
چلو اپنے مقدر میں کوئی زنجیر لکھتے ہیں
یہ ممکن ہے کہ میرے درد کا کچھ حل نکل آئے
مرے قاتل تمہارے نام کی تفسیر لکھتے ہیں
"مجھے سیرابیوں میں تشنگی محسوس ہوتی ہے"
یہ شدت میں نہیں لکھتا یہ حضرت میرؔ لکھتے ہیں
مؤرخ جب بھی لکھتے ہیں کبھی تاریخ ماضی کی
نجانے کیوں مجھے رانجھا تمہیں کو ہیر لکھتے ہیں
خدایا چھین لے ان سے یہ پندارِ خداوندی
ترے بگڑے ہوئے بندے یہاں تقدیر لکھتے ہیں
ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں جاویدؔ دینے کو
تمہارے نام اپنے درد کی جاگیر لکھتے ہیں
سردارجاویدخان
پتہ، مہنڈر، پونچھ
رابطہ، 9419175198
زیست میں جو عذاب ہوتا ہے
آزمائش کا باب ہوتا ہے
چاند کو دیکھ لو من سے
اصل میں آفتاب ہوتا ہے
بول ،کیا ہے بولنا تم کو
ہاتھ میں جب گلاب ہوتا ہے
اس کے نقشِ قدم پہ چل پڑا جو ہو
وہ بلا شک کامیاب ہوتا ہے
یہ امانت جو دی ہے اللہ نے
اس کا آخر حساب ہوتا ہے
دل سے جب یاد دور ہوتی ہے
جسم میں اضطراب ہوتا ہے
زیست بارے میں کیا کہوں تم سے
ظلم تو بے حساب ہوتا ہے
بھول جاتا سبھی ہے بسمل ؔجی
سامنے جب جناب ہوتا ہے
سید مرتضیٰ بسمل
شعبہ اردو ساؤتھ کیمپس کشمیر یونیورسٹی
موبائل نمبر؛9596411285
درد جگر کا سہہ لیتے ہیں
تھام کے دل کو رہ لیتے ہیں
لفظ نہیں یہ انگارے ہیں
آپ جو ہنس کر کہہ لیتے ہیں
اشکوں کی ٹھنڈی لہروں میں
چپکے سے ہم بہہ لیتے ہیں
ترش رویوں کی تلخی کے
تیر جگر پر سہہ لیتے ہیں
ہجر کے جہنم زا لمحوں کو
خاموشی سے سہہ لیتے ہیں
حوصلہ پھُولوں کا ہے کاشف ؔ
بند کتب میں رہ لیتے ہیں
اظفر کاشف پوکھریروی
موبائل نمبر؛9149833563
اُسے بھی کچھ گلہ تھا
میں بھی تھوڑا خفا تھا
وہ بھی ضد پہ اڑی تھی
میں بھی ضد پہ اڑا تھا
ہمارے درمیاں اب
زرا سا فاصلہ تھا
وہ میرے سامنے تھی
میں اُس کو چھو رہا تھا
پھر اُس کے بعد میں نے
اُسے بوسہ دیا تھا
اِندرؔ سرازی
ضلع ڈوڈہ، پریم نگر
موبائل نمبر؛ 7006658731