طاقوں سے رفتگاں کے دئیے کون لے گیا
	ہر ایک پوچھتا تھا ارے کون لے گیا
	ڈرتا ہوں پستیوں کی طرف دیکھنے سے بھی
	اتنی بلندیوں پہ مجھے کون لے گیا
	تمثیلیں، استعارے، تراکیب اور طرز
	سامان شعر سے یہ مرے کون لے گیا
	لایا تھا بحرِ خواب کی تہہ سے میں ایک لعل
	آنکھوں سے مری رات رہے کون لے گیا
	دل کھوگیا تھا اس کا مجھے دیکھ کر کہا
	کیوں بولتا نہیں تو ابے کون لے گیا
	نخلِِ سکوتِ فکر کے پتے رفیق ؔراز
	تازہ تھے اور تھے وہ ہرے کون لے گیا
	رفیق رازؔ
	سرینگر، موبائل نمبر؛9622661666
	غزلیات
	عشق سے گر گزر چکے ہوتے
	کب کے ظالم تو ڈر چکے ہوتے
	فیصلہ ہوگا قتل کر کے ہی
	تم جو کہتے تو کر چکے ہوتے
	چھین کر چین چہروں سے اب تک
	زخم یہ کب کے بھر چکے ہوتے
	کٹتی ہیں انتظار میں راتیں
	ورنہ تو کب کے مر چکے ہوتے
	ہے خدائی نہ لوگوں کے بس میں
	یہ کہیں بھی مُکر چکے ہوتے
	✍راتھر عمرؔ
	سرہامہ،سریگفوارہ،اننت ناگ
	موبائل نمبرات؛ 7006817548/
	9906535991
	تنہائیوں میں اکثر کیسا عذاب دینا
	خود ہی سوال کرنا خود ہی جواب دینا
	ٹوٹے تو اشک ہونگے تبدیل پھر لہو میں
	کچھ سوچ کر سمجھ کر آنکھوں کو خواب دینا
	پیلٹ سے چھین لینا آنکھوں کی روشنی کو
	ننھے سے ہاتھ میں پھر لاکر گلاب دینا
	اے دلفریب ساحر کچھ کر کرشمہ سازی
	ظلمت کے باسیوں کو اک آفتاب دینا
	جیسے کہ خواہشیں ہیں سب ناتمام اپنی
	دل ہے اگر چہ دینا خانہ خراب دینا
	اس وصل کی گھڑی میں کچھ اور گفتگو ہو
	رہنے دو پھر کسی دن میرا حساب دینا
	 سید وقار دانش
	سرفراؤ کنگن،رابطہ نمبر؛8491848782
	یہی ہے التجا حق سے ، یہی ہے آرزو اپنی 
	مٹے نہ تیرگی میں بھی خودی کی جستجو اپنی 
	خوشامد کے چمن میں کون ہے بلبل سے وابستہ 
	ہے اب تو ہر کلی کرتی مگس سے گفتگو اپنی 
	ارے اُن کو گمان ہے کیوں مروت نہ رہی ہم میں
	وفا میں برملا ہم نے لُٹادی آبرو اپنی 
	گزر جائیں زمانے پریہی انداز ہو اپنا 
	فنا ہو جائیں مٹ جائیں ،رہے قائم یہ بُو اپنی
	سنا ہے زیبؔ بدلے ہیںحیات و موت کے نقشے 
	قیامت ہو، حقیقت سے اگر ہوں روبرو اپنی 
	زیبؔ
	 سوپور کشمیر۔
	طالبہ بارہویں جماعت
	فیصلہ ہے کہ ترے دل میں ٹھہرنا ہے مجھے
	اور اک  درد کے عالم سے گزرنا ہے مجھے
	رات کیا جانے ابھی کام ہے کتنا باقی
	شام کو ڈوبنا ہے صبح ابھرنا ہے مجھے 
	ایک طوفاں سے ہے مجھ کو بھی پرانی رنجش
	یہ اگر وہ ہے تو پانی میں اترنا ہے مجھے
	میرا کمرہ ، میری راتیں، میری نیندیں ہیں مگر
	میرے ہی خواب ڈراتے ہیں تو ڈرنا ہے مجھے
	ان کی نظروں میں اگر رہنا ہے پھولوں کی طرح
	روز  خوشبوؤں کی مانند بکھرنا ہے مجھے
	جب سے قسطوں میں ہی ملنے لگیں سانسیں بلراجؔ
	روز جینے کے لیے روز ہی مرنا ہے مجھے
	بلراجؔ بخشی
	۱۳/۳، عید گاہ روڈ ، آدرش کالونی، 
	اُدہم پور- ۱۸۲۱۰۱(جموں کشمیر)
	 Mob: 09419339303
	ہر ہر قدم پہ حلقۂ منزل بنا کے دیکھ
	پلکوں سے اپنی راہ کے ذرے اُٹھا کے دیکھ
	منزل کی سمت پائے شکستہ اُٹھا کے دیکھ
	ممکن نہیں ہے جو، اُسے ممکن بناکے دیکھ
	افسانۂ حیات کو رنگیں بنا کے دیکھ
	پھر دیکھ ایک بار یوں ہی مسکرا کے دیکھ
	خود اعتمادیوں کا کرشمہ تو دیکھئے
	تِنکے پکارتے ہیں نشیمن بنا کے دیکھ
	ساحل پہ اُس کی عظمتِ زیشاں کو بھول جا
	طوفاں میں کتنے حوصلے ہیں ناخُدا کے دیکھ
	اے جانِ آرزو مری نظریں ہیں منتظر
	قابل ہے دل میں رہنے کے تُو دل میں آکے دیکھ
	ظالم تجھے تو شانِ حقارت روا نہیں
	نظروں سے یوں نہ مجھکو تو اپنی گرا کے دیکھ
	کھُل جائے گا حیات کا گلشن مرے ساقیؔ
	میری طرف بھی دیکھ مگر مسکرا کے دیکھ
	امداد ساقیؔؔ
	سرینگر،موبائل نمبر؛ 9419000643
	عُذر ہے ساقی سے اپنا وہ کرم کرتے نہیں
	کیوں سرِ میخانہ اکثر جام وہ بھرتے نہیں
	کاش دیتا میکدے میں جام وہ ہم کو مُدام
	ہم تلاشِ مۓ میں گرداں دربدر پھرتے نہیں
	کیا بتائیں آپ سے ہم آبلہ پایانِ شوق
	تشنہ لب ہونے کے مؤجب ہم سفر کرتے نہیں
	مختصر روداد اپنی ہے رقم پیرِ مُغاں
	ہم عنایت کا تری مطلق بھرم کرتے نہیں
	اور ہونگے جن کو ہوگا آپ سے شکوہ حضور
	آپ کے جورو جفا کا ذکر ہم کرتے نہیں
	چھیڑتے ہیں دوست اکثر ساغر و مینا کی بات
	جانب مئخانہ لیکن ہم نظر کرتے نہیں
	ہونے والی ہے شب تاریک کی مُدت تمام
	وائے رے عشاقؔ پھر ذکرِ سحر کرتے نہیں
	عشاقؔ کشتواڑی
	صدر انجمن ترقی اردو  (ہند) شاخ کشتواڑ
	موبائل نمبر؛9697524469
	کیسے پیکر میں سنوارا جائے ہے
	چاند دھرتی پر اُتارا جائے ہے
	دل سے جس کو ہے نکالا آپ نے 
	پھر اُسے کیوں کر پکارا جائے ہے
	ایک موج ِبے نشاں کے شوق میں 
	تیرے ہاتھوں سے کنارا جائے ہے
	زہر پینے بھی دو ساگر کی طرح 
	مے قدے میں کیا تمہارا جا ئے ہے
	سب سفینوں کوڈبو کر اب یہاں
	 کیوں خبر بن کےاُبھاراجائے ہے
	درد ِ دل اتنا بڑا ہے  جو کہ اب 
	رات بھر مجھ کو پکارا جائے ہے
	راقم حیدر
	حیدریہ کالونی، شالیمار ،موبائل نمبر؛9906543569
	نظر اس کی نیچے بھلا کیوں جھکی  ہے 
	’’محبت، عدوات، وفا، بے رُخی ــ‘‘ہے 
	وہ معصوم نادان اتنی حسیں ہے 
	زمیں  پر  لگے  چاندنی  آ چُکی  ہے 
	لگا روگ جس کو اگر عشق کا ہے 
	دوانہ ہوا وہ بھلا آدمی ہے
	جسے عشق میں لگ گئی چوٹ ہو گی
	وہ بے چین بے تاب رہتا دُکھی ہے
	نہیں ہوش رہتا اُسے پھر کوئی  بھی 
	منیؔ عشق میں کون ہوتا سُکھی ہے
	ہریش کمار منیؔ بھدرواہی
	جموںکشمیر
	موبائل نمبر؛9596888463