آیا جو خیال بھی تو منفی
پوچھا جو سوال بھی تو منفی
تھا خود وہ غزال بھی تو منفی
تھی اس کی اُچھال بھی تو منفی
سر چڑھ کے جادو بولا تھا
دل پر تھا وبال بھی تو منفی
سورج کو نابینا سمجھا
دی اس نے مثال بھی تو منفی
آنکھ میں کیسے بھرتے جلوے
تھا اس کا جمال بھی تو منفی
سرخ کِھلا تھا گُل گلدان میں
رخ پر تھا جلال بھی تو منفی
سوچوں پہ لگے پہرے عادل ؔ
آیا تھا خیال بھی تو منفی
اشرف عادل ؔ
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل سرینگر کشمیر
رابطہ ؛9906540315
ہر لمحہ اپنے دور کا خنجربکف رہا
اپنا وجود اس کے ستم کا ہدف رہا
ہیرے مسرتوں کے تراشے بہت مگر
ہاتھوں میں غم کا ریزۂ سنگ و خذف رہا
دی اس نے دوستوں کو سند اعتبار کی
میرا ہی نام اس کے سخن سے حزف ہوا
دیوار جب اٹھائی عزیزوں نے گھر کے بیچ
غم عمر بھر کے واسطے میری طرف رہا
فکرِ سخن میں چل پڑا جب بھی قلم سعیدؔ
لفظوں کا اک ہجوم د گر صف بہ صف رہا
سعید رحمانی
مدیراعلیٰ ادبی محاذ
دیوان بازار۔کٹک۔753001(اڑیسہ)
سچ ہے یا صرف سر کا سودا ہے
جو بھی ہے کیا حسیں تماشہ ہے
میری غفلت کا یہ نتیجہ ہے
دیکھ لو کون دل میں بیٹھا ہے
دیکھ کر روزنِ حصارِ ذات
درد منت پذیرِ دیدہ ہے
ہائے قسمت! مری کہانی میں
کوئی صحرا نہ کوئی تیشہ ہے
دل کے امراضِ رنج و حرماں کا
تیرا دیدار ہی مداوا ہے
تیری ہستی کا راگ کیا کہنا
چاندنی رات میں کدارا ہے
کیا عجب ہے کہ کھویا رہتا ہوں
مجھ میں بے حد وسیع صحرا ہے
بے خودی تک پلائے جا ساقی
کو چۂ عشق کا ارادہ ہے
مونس عبدالماجد
شعبہ فلسفہ،،اے ایم یو، علی گڑھ
موبائل نمبر؛7060437448
دیپک راگ کی ایک رانگنی
وقت کی بانہوں سے نکلوں کیسے میں
وقت کیا ہے جان پائوں کیسے میں
وقت سے پہلے جہاں میں کچھ نہ تھا
کچھ مگر تھا، چھو کے دیکھوں کیسے میں
وقت بہتا ایک دریا تیز رو
بوند ہوں موجوں سے کھیلوں کیسے میں
اب تلک خود کو سمجھ پایا نہ میں
وقت کی چالوں کو سمجھوں کیسے میں
ریت ہاتھوں سے نکلتی ہی گئی
خواب کی چھائوں سنبھالوں کیسے میں
مشتاق مہدی
مدینہ کالونی۔ ملہ باغ حضرت بل سرینگر
فون نمبر9419072053
دلبر جب سے دُور ہُوا ہے
دِل تو چکنا چُور ہُوا ہے
کُچھ نہیں بھاتا یاربِنا اب
عشق مجھے بھر پُور ہُوا ہے
پوجا اُس نے تجھ کو، شاید
اِس کارن مغر ور ہُوا ہے
تجھ کو مجھ سے غرض نہیں ہے
تُو تو بہت مشہور ہُوا ہے
گِرتا سنبھلتا چلتا ہوں میں
ہائے! منی ؔ معذور ہُوا ہے
ہریش کُمار منیؔ بھدرواہی
جموّں و کشمیر
موبائل نمبر؛9596888463
دل کسی کا آج شیدا ہو گیا
درد اک سینے میں پیدا ہو گیا
ڈھل کے سانچے میں محبت کے ابھی
ایک کنکر سے میں ہیرا ہو گیا
سر پٹخ کے آیا تیرے در سے میں
خون میرے سر کا سہرا ہو گیا
تھا کبھی آباد جو دل کا چمن
آج ہائے غم کا صحرا ہو گیا
جب تلک تم تھے تو تھے ہمراہ سبھی
تم چلے کیا میں بھی تنہا ہو گیا
مشکلوں سے آج ہی نکلا تھا میں
مشکلوں کا پھر سے گھیرا ہو گیا
کیا ملا شادابؔ تم کو عشق میں
ہر جگہ ہر بار رسوا ہو گیا
ٓٓٓٓ
محمد شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمار سرینگر کشمیر
رابطہ؛ 9797103435
ایک ہی خوف مجھے شام و سحر رہتا ہے
اُٹھ کے اس در سے میرا کون سا در رہتا ہے
ہائے! اس دل پہ گُزرتی ہے قیامت ہر دم
تُجھ کو پا کر تُجھے کھونے کا بھی ڈر رہتا ہے
تیرے ہونے سے ہے بستی میں یہ رونق ورنہ
تُو چلا جائے تو ویران نگر رہتا ہے
یوں میں رہتا ہوں تیرے بعد اکیلا جیسے
دور سحرائوں میں بےجان شجر رہتا ہے
نام لیتا ہوں جو تیرا کبھی انجانے میں
مُدّتوں تک میرے لہجے میں اثر رہتا ہے
اُن کی بستی میں رواں امن کے نغمے تابشؔ
میری بستی میں بپا حشر مگر رہتا ہے
جعفر تابش
مغلمیدان ،کشتواڑ
رابطہ؛8492956626
مرا دلدار مجھ سے کم نہیں ہے
وہ مجھ دیوانہ سے برہم نہیں ہے
بگڑتے جا رہے حالات ہیں اب
کسی کے پاس جامِ جم نہیں ہے
نگاہِ ناز یاں بھی کر لے ساقی
نگاہوں میں تری کیا خم نہیں ہے؟
دلاسہ جھوٹ کا گر کوئی دے دے
وہ زخموں کا کبھی مرہم نہیں ہے
مرے فاصل بھی آئے پاس کیسے
کوئی اس دہر میں باہم نہیں ہے
غنیمت ہے کہ گاتا جا رہا ہوں
سرُوں میں گوکہ زیر و بم نہیں ہے
مجھے پینے دے آنکھوں سے ہی ساقی
مرے ہاتھوں میں اب وہ دم نہیں ہے
پلا دے ساقیا اب جام بھر کے
مجھے لٹنے کا کوئی غم نہیں ہے
سنبھل کے اب ذرا الیاسؔ چلنا
وہ مستانہ کسی سے کم نہیں ہے
محمد الیاس لداخی
پی ایچ ڈی، اسکالر۔ دہلی یونی ورسٹی
موبائل نمبر؛6005412339