وہ جو دن رات یوں بھٹکتا ہے
جانے کس کی تلاش کرتا ہے
دل بھی اس کا ہے جگنوؤں جیسا
شام کے وقت جلتا بُجھتا ہے
سامنے بیٹھا ہے مگر پھر بھی
لب ہے خاموش، کچھ نہ کہتا ہے
ہنس کے رونا، اُداس ہو جانا
کیا پتہ کس کو پیار کرتا ہے
دل جو لگ جائے غیر کے دل سے
پھر سنبھالے کہاں سنبھلتا ہے
یاد آ جاتا ہے وہی چہرہ
چاند بادل سے جب نکلتا ہے
چارہ گر کو خبر کرو کوئی
تنہا بسملؔ کا دل تڑپتا ہے
پریم ناتھ بسملؔ
مرادپور، مہوا، ویشالی۔ بہار
رابطہ۔8340505230
نہ گل باقی نہ گلشن میں ثمر کوئی
فقط کانٹوں پہ کرتا ہے بسر کوئی
کبھی پتھر، کبھی افلاک کی زد میں
ثمر افشاں ہوا جب سے شجر کوئی
ستارے کُو بہ کو پھیلے کہ جگنو،شب
مرے در پر گرا لیکن شرر کوئی
زمین اتنی ہوئی ہے سخت گلشن کی
لہو پی کر نہیں ہوتا اَثر کوئی
طلاطم ہے سمندر میں نہ طغیانی
کنارے تک نہیں پہنچا مگر کوئی
دوا کی ہے، نہیں، حاجت رفو کی ہے
تمنا ہے کہ دیکھے آنکھ بھر کوئی
رفیقوں کی رہی قربت سدا عارف ؔ
مصیبت میں نہیں آیا نظر کوئی
جاوید عارف ؔ
پہانو شوپیاں کشمیر -۱۹۲۳۰۳
فون نمبر =9797111172
تعبیر کا کوئی فہم نہیں
خوابوں سے ہیں الہام اچھے
وہ کون میرا،میں کیا اسکی
ہیں کچھ رشتے بے نام اچھے
آنسوں جو بہے تو بھاپ بنے
کیا عشق کے دیکھو دام اچھے
ابلیس کی فوج ہو موج میں گر
کیا رہینگے صبح و شام اچھے
صابر ہی تو اللہ کو بھائے
انگور نہ ہوتے خام اچھے
اُس نے ہی جسکو ہاتھ دیا
اے زیب ؔ بگاڑے کام اچھے
زیبؔ زینہ گیری
طالبہ بارہویں جماعت ۔ سوپور کشمیر
موبائل نمبر؛9070885416
ارمان دِل کے سب کچلے دبائے ہم نے
نُسخے جوروجفاکے خودپرآزمائے ہم نے
لِکھے تھے خارہی جب اپنے مقّدرمیں
سجائے خارہی پھولوں کی بجائے ہم نے
ان کو جھیلنا تھا یوں بہت مُشکل
تلخ حقیقتوں میںچندخواب مِلائے ہم نے
صعوبتیں سہتے رہے کیاکیامگرپھربھی
بقائےزندگی کے لیے سوشکرمنائے ہم نے
عزیزتھیں کتنی ہمیں دِل کی حسرتیں صورتؔ
درِمزارپہ اِن کے پھراشک بہائے ہم نے
صورت سنگھ
رام بن،موبائل نمبر؛9419364549
محبت کرنے والے بھی بہت نادان ہوتے ہیں
وفا میں بے مُروت پر سدا قربان ہوتے ہیں
شکستہ دل یہ کہتا ہےتوقع اب نہیں کچھ بھی
اِسے الہام ہوتے ہیں، ترے بہتان ہوتے ہیں
وہ دل جو بے وفا سے بھی تعلق رد نہیں کرتے
بھروسہ کرتے کرتے وہ نہاں زندان ہوتے ہیں
خزاں آنے کی افواہیں وہاں کس کو ستائیں گی
بہاروں سے بھی جس محفل میں دل ویران ہوتے ہیں
وہ پروانے بھی غافل ہیں جُھلس جاتے ہیں بِن سوچے
کتابِ عشق میں ان کے فقط عنوان ہوتے ہیں
قضا تسلیم کرکے میں صنم کو بھول جاتا ہوں
مُکرّر یاد کرنے کو لُٹے ارمان ہوتے ہیں
فدا کاری سی ہوتی ہے نظر کے امتحانوں میں
کہ بزمِ حُسن میں بیٹھے صنم حیران ہوتے ہیں
مسافر راکھ کے اندر، تپش کی جستجو سی ہے
ستمگر شمع سا ہو تو سفر آسان ہوتے ہیں
اجازت ہے نہیں مجھکو اُسے بے پیرہن دیکھوں
نرالے اس صنم کے بھی عجب فرمان ہوتے ہیں
دل معصومؔ کے گاہک نوازش تک کو پہنچے ہیں
مروّت کے یہ پروانے اَٹل ایمان ہوتے ہیں
معصومؔ فرمان مرچال
سوپور کشمیرطالب علم: بارہویں جماعت
موبائل نمبر؛6005809201
ایک حقیقت
قاتلوں سے اب وفا کرنے لگے
خود سے بھی دیکھو جفا کرنے لگے
پالتے ہیں عادتاً سانپوں کو لوگ
زہر کو بھی ہم غذا کرنے لگے
توڑکر رشتے سبھی خالق سے پھر
خاک کو بھی ہم خداکرنے لگے
بانٹنے نکلے ہیں مسلم مسجدیں
خود کو ہم بھی تو جمع کرنے لگے
ڈھونڈتا ہے خیرِامت کو جہاں
اُس کو اب فرقےفنا کرنے لگے
لُٹ رہی ہیںعصمتیں ،خاموش ہم
دل کو ہم بھی اب سیاہ کر نے لگے
بیچ کر ایمان و غیرت کو شریفؔ
ہم بھی شیطاں کو الٰہ کرنے لگے
شیخ سرفرازشریفؔ
بتہ مالو ، سرینگر [email protected]