اعلیٰ بھی ہوا عشق میں ادنیٰ میرے آگے
رانجھا ہی نہیں قیس بھی رسوا میرے آگے
موسیٰ نے کیا طور پہ سودا مرے آگے
دیکھا نہیں کیا اس نے یہ جلوہ مرے آگے
موجود تھے میخوار بھی زاہد بھی وہاں پر
اس بزمِ خطا میں تھا وہ تنہا مرے آگے
اس روز خرد کا بھی تماشا ہی ہوا تھا
کرتے رہے میخوار بھی دعویٰ مرے آگے
اوتار تھا اک سنگ اک سنگ میں شیشہ
ہر شخص کے چہرے پہ تھا چہرہ مرے آگے
پانی کی روانی بھی روانی ہے کوئی کیا
"گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے "
لہروں پہ کیا رقص تری پیاس نے عادل ؔ
دریا میں مسیحا بھی تھا پیاسا مرے آگے
اشرف عادل ؔ
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل
سرینگر کشمیر ،رابطہ 9906540315;
گونگے الفاظ یہ جھنکار لئے پھرتے ہیں
کاش سُن لے کوئی آزار لئے پھرتے ہیں
وہ جو سُورج کی قبا اُوڑھ کے چلتے تھے کبھی
ساتھ میں سایۂ دیوار لئے پھرتے ہیں
آج بھی راہِ محبت میں ترِے خوش گُذاراں
اپنے شانوں پہ وہی دار لئے پھرتے ہیں
ٹوٹے ارمانوں کا مُٹھی میں لئے مال ومتاع
ہم جہاں پھرتے ہیں بازار لئے پھرتے ہیں
اپنی پہچان کی خاطر یہ قبیلے والے
اپنے اجداد کی دستار لئے پھرتے ہیں
دشتِ وحشت میں بھی ہم لوگ سروںپر اپنے
سایۂ چادرِ کردار لئے پھرتے ہیں
کھو گئے وقت کی اِس دُھند میں مانوسؔ کئی
ڈھونڈ لائے کوئی اخبار لئے پھرتے ہیں
پرویز مانوسؔ
آزاد بستی نٹی پورہ
موبائل نمبر؛9419463487
شعر وسُخن کتابِ دل ہے بسکہ اِک نوائے دِل
اللہ رے دائم رہے تازیست یہ صدائے دل
کڑوا ہے سچ کہ سچ کے تقاضوں میں رہا دم بہت
کوئی تو بتادے کہ اس میں کیا ہے کچھ خطائے دل
ہے زندگی لبریز دردِ دل سے لمبی داستان
مُنہ بولتی جراحتیں خنداں ہیں سب برائے دل
بکتی نہیں انسان کی قدریں ہیں اِس بِساط پر
ہے اِکتسابِ زندگی جو کچھ یہاں کمائے دل
یوں صبر کا دامن بھی ہے پھیلا ہی رہ جائے کبھی
وہ اِک کھری کھری سُنائے، کیسے بہل جائے دل
وہ دل کی وُسعتیں کہاں چُھپی ہیں وقتِ حال میں
کہ دُور دل کے پار تک نہ جائے اِک نِدائے دل
کچھ خوبیاں ہر آدمی کی رہتی ہیں سُکوت میں
کہ اِن کو دھیرے کیوں نہ اب بحالِ خود جگائے دل
جہاں جہاں کی اُلفتیںنہیں کُوز ے میں سِمٹ گئیں
یہ روُد ہے رَواں رہے، نکھرتی ہے ادائے دل
ہر اِک سوال حل طلب ہے کام بھی طویل تر
کُھلے گی یوں گِرہ کہ کوئی اپنے ساتھ لائے دل
یہاں کی کُلفتیں شدید ہیں کہ پھر چمٹ گئیں
کوئی مسیحا آئے تو،جِسے کہ خود سُنائے دل
طِلسمِ رنگ و بُو میں ہیں جو ناچتی پرچھائیاں
کیا پُوچھئے گا اِن سے میرؔ، بسکہ جئے جائے دل
ڈاکٹر میر حسام الدّین
گاندربل کشمیر
خوف دہشت کا سماں ہے چار سُو
زندگی ماتم کناں ہے چار سُو
خونِ آدم ہوگیا ارزاں یہاں
مثلِ پانی اب رواں ہے چارسُو
زندگی سے ہوگئے بیزار لوگ
موت کی الفت جواں ہے چارسُو
کس گلی میں لال اُس کا کھوگیا
ڈھونڈتی اب جس کو ماں ہے چارسُو
آج پھر کس کا جلا ہے آشیاں
یہ فضا میں کیوں دھواں ہے چارسو
چل بسائیں شہر کوئی امن کا
کیوں نہیں آتی اذاں ہے چارسو
پھر ہوا ثاقبؔ میرا دل غمزدہ
سن رہا آہ و فغاں ہے چارسو
ثاقبؔ فہیم
زاورہ شوپیان کشمیر
موبائل نمبر؛9596502688
حسن تیرا وہ کام کر بیٹھا
جونہ بادہ و جام کر بیٹھا
عشق مرنے بھی اب نہیں دیتا
عشق راحت حرام کر بیٹھا
رام کیونکر جہاںنہ ہوجاتا
ایک دل کو جو رام کر بیٹھا
عشق،تدبیر ا یسی پائی ہے
کام سارا تمام کر بیٹھا
حیرتوں،حسرتوں میں میں اُلجھا ہے
صبح کو یوں ہی شام کر بیٹھا
عشق میں، ــ"جو نہ مختفی کرتا"
در خواص و عوام کر بیٹھا
تیری فُرقت وہ کر گئی واجدؔ
جو نہ دشمن کا دام کر بیٹھا
واجد عباس ؔ
نوگام سوناواری، بانڈی پورہ
فون نمبر: 7006566516
مری جان مجھ کو ستایا نہ کر
محبت میں یوں آزمایا نہ کر
ہیں لہریں بڑی تیز دریائوںکی
سمندر کنارے تو جایا نہ کر
سنا ہے یہ دشوار ہیں راستے
گھنی جاڑیوںسے تو جایا نہ کر
یہ جلتے ہوئے راستوں کے چراغ
رقیبوںکے خاطر بجھایا نہ کر
لبوں کی ہنسی کو سمجھتا ہے کون
دکھی ان دلوں کو دکھایا نہ کر
فانی ؔ ایاز احمد گولوی
گول رام بن9596606391
چمن پہ جوبن بہار کا ہے
عجیب منظر دیار کا ہے
جو پھول قاتل بنے چمن کے
تو دوش کیا اسمیں خار کا ہے
قیام امن و اماں تو ہوگا
گماں مگر انتظار کا ہے
لگایا بوٹا تھا سنترے کا
تو پھل کیوں اسمیں انار کا ہے
رُندھی ہوئی بستیاں ہیں ہر سُو
یہ کام کس شہ سوار کا ہے؟
سنبھالو مالی یہ اُجڑا گُلشن
کہ تم پہ سایہ بہار کا ہے
فاروق احمد ملک کوٹی ؔ(ڈوڈہ)