کہہ رہے ہیں آج سب اہلِ نظر اچھا لگا
پر زمانے کو کہاں میرا ہنر اچھا لگا
شاخ سے پہلے ہوائوں نے گرایا خاک پر
اور پھر ان زرد پتوں کو شرر اچھا لگا
عشق کے بازار کا سامان سب تھا دلفریب
لاکھ دیکھا پر ہمیں دردِ جگر اچھا لگا
اور بھی دنیا میں کتنے خوبصورت ہیں مقام
کیوں حوادث کو ہمارا ہی نگر اچھا لگا
دور میں ہر دم رہا جس کے درودیوار سے
جب جہاں میں دیکھ آیا تو وہ گھر اچھا لگا
آسماں نے بھی سُنی ہوگی بہت چیخ و پکار
آگ کو جب آشیانہ سربسر اچھا لگا
جو مسافر تھے یہاں اُن کو ملی ہیں منزلیں
جُستجو کس کی ہمیں تھی کیوں سفر اچھا لگا
تیر چل کے آگئے سارے میرے تن کی طرف
ہر کسی تلوار کو میراہی سر اچھا لگا
رئوف راحتؔ
سرینگر، موبائل نمبر؛9419626800