سول جج کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والی غزالہ تسنیم سے اے این شبلی کی خاص بات چیت عام طور ایسا مانا جاتا ہے کہ لڑکیوں خاص طور پر مسلم لڑکیوں میں تعلیم کی کمی ہے۔ایسے میں اگر کوئی مسلم لڑکی سول جج کے امتحان میں کامیاب ہو جائے تو یہ اپنے آپ میں ایک بڑی کامیابی مانی جائے گی۔یہی کمال کیا ہے غزالہ تسنیم عرف گڑیا نے۔غزالہ کی کامیابی پر’’آزاد ایکسپریس‘‘ کے مدیراے این شبلی نے ان سے مختصر بات کی۔ پیش خدمت ہے اسی بات چیت کے اہم اقتباسات۔
سوال:سب سے پہلے آپ اپنی فیملی کے بارے میں بتائیں۔
جواب: میرے والد جناب خورشید عالم صاحب ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ جج ہیں۔میرا ایک بھائی پٹنہ ہائی کورٹ میں لیگل پریکٹشنر ہے جب کہ بڑے بھائی سافٹ ویئر انجنیئر ہیں۔میری بڑی بہن ڈاکٹر ہیں اور چھوٹی بہن سول انجینئر ہے۔میری شادی ہو چکی ہے اور میرے شوہر جنرل سرجن ہیں۔
سوال: آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
جواب: مجھے خوشی ہے کہ مجھے کئی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔بہار سے میٹرک کرنے کے بعد میں نے انٹر اور گریجویشن علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے کیا۔نوئیڈا واقع امیٹی سے ایم ایس سی بایو ٹکنالوجی کرنے کے بعدٹی این بی لا کالج بھاگلپور سے میں نے ایل ایل بی کیا اور اس کے بعد میسور اوپن یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کی تعلیم حاصل کی۔عام طور پر ایسا مانا جاتا ہے کہ شادی کے بعد لڑکیاں کام میں مشغول ہو جاتی ہیں اور انہیں تعلیم کا موقع نہیں ملتا جب کہ میں نے شادی کے بعد ایل ایل بی کیا۔
سوال: آپ کو یہ کب احساس ہوا کہ مجھے بھی جوڈیشل سروس میں جانا چاہئے اور آپ کو اپنے ہدف کو مکمل کرنے میں کن کن کا تعاون حاصل رہا؟
جواب:میرے والد جوڈیشل سروس میں ہی تھے اور مجھے ان سے ہی ترغیب ملی۔ان کو دیکھ کر ہی مجھ میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مجھے بھی جوڈیشل افسر بننا چاہئے۔مجھے میرے ہدف کو مکمل کرنے میں میرے شوہر اور میری پوری فیملی کا مجھے مکمل تعاون حاصل رہا۔بلکہ مجھے میرے دونوں بیٹوں نے بھی مجھے مدد کی۔سب سے زیادہ مدد مجھے میری ماں سے ملی جنہوں نے نہ صرف میری مناسب طریقے سے تربیت کی بلکہ مجھے ہمیشہ دعاؤں سے نوازتی رہیں۔
سوال: مسلم لڑکیوں میں تعلیم کی کمی ہے ۔اس کیلئے کون ذمہ دار ہے؟
جواب: مسلم لڑکیوں میں تعلیم کی کمی ہونے کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم دین سے دور ہیں۔ہم نے مذہب کو مناسب طریقے سے سمجھا نہیں ہے۔اگر ہم اسلام کو مناسب طریقے سے سمجھتے تو لڑکیوں میں تعلیم کا فقدان نہیں رہتا۔تعلیم کے تعلق سے لڑکیوں کو بھی ویسی ہی اہمیت ملتی جیسی لڑکوں کو ملتی ہے۔اسلام کہتا ہے کہ اگر آپ ایک لڑکے کو پڑھاتے ہیں تو صرف ایک آدمی کو پڑھاتے ہیں جب کہ اگر ایک لڑکی کو پڑھاتے ہیں تو ایک پورے خاندان کی تعلیم ہوتی ہے۔والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی تعلیم پر بھی اتنا ہی توجہ دیں جتنا وہ اپنے بیٹوں کی تعلیم پر دیتے ہیں۔ لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرنا چاہئے۔
سوال: آپ نے امتحان میں کامیابی کیلئے روزانہ کتنے گھنٹے پڑھائی کی اور جو امیدوار خاص طور پر لڑکیاں اس میدان میں آنا چاہتی ہیں ،انہیں آپ کیا مشورہ دینا چاہیں گی؟
جواب:مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیابی کیلئے کوئی گھنٹہ طے کرکے تیاری کی جائے یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔البتہ ریگولر اسٹڈی بہت ضروری ہے۔امتحان کی تاریخ کا جب اعلا ن ہو جائے تو کم سے کم14-15گھنٹے ضرور پڑھائی کی جائے۔جو لڑکیاں اس میدان میں آنا چاہتی ہیں، انہیں میرا مشورہ ہے کہ وہ ایمانداری سے مناسب سمت میں محنت کریں۔اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔میرا یہ ماننا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم میں شادی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ضروری یہ ہے کہ آپ کسی چیز کو دل سے چاہیں اور پھر اسے حاصل کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں۔کامیابی ضرور ملے گی۔
سوال: عدالت سے لوگوں کو بہت امیدیں رہتی ہیں مگر اب یہاں بھی کرپشن ہے۔ ہندوستان میں ایماندار بنے رہنا کتنا مشکل ہے؟
جواب: یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ اپنے ملک ہندوستان میں کرپشن بہت عام ہے۔یہاں ایماندار بنے رہنا مشکل تو ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔میں ہر ممکن کوشش کروں گی کہ ایماندار بنی رہوں اور ایسی کوئی حرکت نہیں کروں جس سے میرا اور فیملی کا نام بدنام ہو۔مجھے پورا یقین ہے کہ میں اپنی ذمہ داری ایمانداری سے نبھاؤں گی۔
مرسلہ ’’ آزاد ایکسپریس ‘‘ نئی دلی