یخبستہ راتوں کو پھلانگ کر سورج ابھی نکلنے کی تیاری ہی میں تھا کہ دبے پاؤں چلنے کی آواز نے سحر کی خاموشی کو جیسے توڑ دیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی رات بھر سویا بھی نہیں اور صبح اٹھتے ہی اپنے کام میں مگن ہو گیا ہے۔ سورج کی کرنیں کتابوں پہ جمی گرد کو واضح کر رہی تھیں اور صبا ان سے جڑی یادوں کو پھولوں کی پتیوں سمیت اڑا لے جا رہی تھی۔ ہر طرف ہُو کا عالم تھا کہ اچانک نظر ایک بچے کے نازک وجود پہ جا پڑی۔ چست جسم، سنہری بال، گلابی چہرہ، نیلی آنکھیں۔ یہ تو وہ حلیہ تھا جو ظاہری آنکھ نے دیکھا تھا۔اب پھول چہرہ بچے کادوسرا رخ بھی ملاحظہ کیجئے،گرد سے اَٹی زلفیں، سلوٹوں سے بھرا چہرہ اور زمانے کی آگ میں دہکتی انگارہ آنکھیں، پھٹے کپڑے، مٹی سے اَٹے پاؤں اور زخمی ہاتھ۔ وہ صحیح معنوں میں گلاب تھا کانٹوں کے درمیان۔ اس کی زندگی کا محور وہ تھیلہ تھا جس میں وہ بڑی نفاست سے کوڑا کرکٹ اکٹھا کررہا تھا۔ بڑی نزاکت سے کچرا منڈی میں داخل ہوتا، اچھی طرح چھان بین کرتا اور اپنے کام کی چیزیں الگ کرتا اور یوں اپنی زیست کے تھیلے میں ہمارا پھینکا ہوا سامان اکٹھا کرتا کہ جو چیزیں ہمارے لیے کچھ نہیں ہوتیں کبھی کبھی وہ کسی کا سب کچھ بن جاتی ہیں۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ گندگی کے جس ڈھیر کے پاس سے گزرتے وقت ہم اپنا ہاتھ ناک پہ رکھ لیتے ہیں کہ اس کی ہوا تک ہمارے صاف، شفاف اور پاک پھیپھڑوں تک نہ جانے پائے۔ وہاں کے جراثیم کچرے کے ان ننھے باسیوں پر اثر کیوں نہیں کرتے؟ ان کا اوڑھنا بچھونا وہی جراثیم ہیں مگر ان کے گالوں کی سرخی ہم سب پہ بھاری ہے۔ تو کیا ہم سے بہتر وہ جراثیم نہیں ہیں جو کمزور پر بے اثر ہو جاتے ہیں؟ اور وہ تو وفادار بھی ٹھہرے کہ اپنے ساتھ جینے والوں کو مرنے کے لیے نہیں چھوڑتے۔ ہم تو اتنے عالی ظرف اور فراخ دل لوگ ہیں کہ دشمن کے بچوں کو بھی پڑھانے کا ذمہ اپنے سر لینا چاہتے ہیں لیکن اپنے ان کروڑ وںبچوں کا کیا جن کا بچپن کچرے کے ڈھیر اور مزدوری کی صعوبتوں کی نذر ہو جاتا ہے؟ مفلسی کی آندھیاں انہیں ماں کی گود سے سیدھا ذمہ داریوں کے منجدھار میں لا کھڑا کرتی ہیں۔ ہمارے بچے ان کتابوں کو ترستے ہیں جو نہ جانے کتنی لائبریریوں میں گرد و غبار کو اپنی زینت بنائے ہوئے ہیں۔
ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ یہ کچی بستیوں کے ان گھروں کو آباد کرتے ہیں جہاں روٹی کے چند ٹکڑے کی زندگی کا واحد مقصد ہیں ،یا یہ ایسی قوم کا حصہ ہیں جہاں ان کا حق ان کا فرض پورا کرنے والے کھا جاتے ہیں؟ خدا جانے کہ کل کتنے بڑے لوگ جو اس قوم کا فخر بن سکتے تھے ، آج کچروں کے تھیلوں تلے دب گئے ہیں۔ جب ایک ریڑھی لگانے والا غریب باپ بیچ سڑک میں کچلا جاتا ہے تو ظلم یہ نہیں ہوتا کہ بچے یتیم ہوجاتے ہیں، حقیقی ظلم تو یہ ہوتا ہے کہ ان کی کتابوں کے تھیلے کچرے کے تھیلوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کوڑا کرکٹ تو خیر ہے ہی بری چیز، ہم تو ہاتھوں میں پھول لیے خوشبوئیں بکھیرتے سگنل پہ کھڑے بچے کے ساتھ بھی فاصلوں کی وہی حد رکھتے ہیں۔ ہاتھوں میں گجرے لیے وہ معصوم ہر کسی کو مدد طلب نظروں سے دیکھتا ہے مگر نہ کسی کو اس کے گجروں پہ پیار آتا ہے اور نہ ہی اس پھول چہرے پہ ترس۔ وہ ہر گاڑی کے دروازے پہ دستک دیتا ہے آہ و بکا کرتا ہے کہ صاحب کھانا نہیں کھایا ،کچھ تو لے لو۔ بڑی گاڑیوں میں بیٹھے شکم سیر لوگ اس کو اداکار کا خطاب دیتے ہیں اور اس کی بھوک کو اپنی نفرت اور حقارت کی نظروں سے مٹاتے ہیں اور کیسے یہ عمل اس بے بس کی عزت نفس کا شیرازہ بکھیرتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ہمیں تو دھوپ میں جلے بغیر روشنی کی ساعتیں میسر ہیں۔اگر اللہ نے آپ کو کسی کے رزق کا وسیلہ نہیں بنایا تو آپ کو توفیق نہیں ہوگی کچھ دینے کی لیکن عزت تو ہر انسان کا حق ہے۔ اسے وہ تو دیجیے۔فرصت کے لمحات میں کبھی سوچئے گا ضرور کہ سورج کی آگ میں دن بھر جلنے کے باوجود رات کی چاندنی میں جب وہ پھول مرجھاتے ہوں گے تو اس کمزور کے اندر اُمید کے اُگنے والے کتنے ہی پودے اپنی موت آپ مرتے ہوں گے اور اس کے گلشن میں لگی کتنی کلیاں بن کھلے ہی مرجھاتی ہوں گی اور ان سب بیش قیمت چیزوں کی قیمت کیا لگتی ہوگی؟ آپ کی جیب میں مقیم کاغذ کے چند ٹکڑے؟
التجا بس اتنی ہے کہ ٹھیک ہے مت دیجیے انہیں اپنے زر کا کچھ حصہ، مت اٹھائیے ان کے ساتھ مل کر کوڑا کرکٹ، چلئے آپ کو ضرورت نہیں ہے تو مت خریدیئے ان پھولوں سے وہ پھول، مت لیجیے سگنل پہ کھڑے ان بچوں سے کھانے کی وہ اشیاء کہ آپ کو بھوک نہیں ہے۔ بے شک ان کے خالی کشکول پہ اپنی نظر کرم نہ کیجیے مگر ان کے گلاب چہروں پہ ایک نگاہ ِمحبت تو ڈالئے۔ کیا محبتیں اتنی نایاب ہو گئی ہیں کہ ہم سڑک کنارے زندگی کی چکی میں پستے ان بچوں پر نچھاور نہیں کر سکتے؟ کیا ہماری مسکان اتنی بیش قیمت ہے کہ ان کی بھولی نظریں بھی اس کی قیمت نہیں چکا سکتی؟ وہ ہماری وراثت کے حق دار نہیں ہیں لیکن عزت، محبت اور اپنائیت تو ان کا حق ہے؟ ان کے پاس گھر گاڑی بنگلہ تو آپ جیسا نہیں ہے لیکن احساسات جذبات اور خواہشات تو سانجھی ہیں۔ کچرے کے ڈھیر میں ہاتھوں میں پھول لیے یہ بچے بھی وہی خواب دیکھتے ہیں جو ململ کے بستروں میں آپ اور ہم دیکھتے ہیں۔ کبھی چہرے پہ مسکان سجائے انہیں محبت کی نظر سے دیکھیے گا ان کی آنکھوں میں آپ کو زندگی ملے گی مسکراتی ہوئی۔ آئیے آگے بڑھئے اور بچا لیجیے اپنے گلشن کو، ان کلیوں کو مرجھانے نہ دیجیے کہ کل کو ان کی خوشبو جانے کتنی روحوں کو معطر کر دے۔