سید مصطفیٰ احمد
کشمیر کے مؤقر میڈیا ہاؤس Kashmir Observer کے digital platform پر ایک انٹرویو میری نظروں سے گزرا۔ یہ انٹرویو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس انٹرویو میں مختلف lifestyles کے بارے میں جامع انداز میں گفتگو کی گئی ہے۔ گفتگو کے دوران interviewee نے کشمیر کے طرز زندگی کے مختلف پہلوؤں کو کھنگال کر عوام کے سامنے سچائی کا post-mortem کرکے رکھ دیا ہے۔ ان کے مطابق کشمیر کے مختلف ادوار میں ترجیحات کے بدلنے کے نمایاں اثرات دیکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان حضرت کے منہ سے اہم باتوں کا نہ تھمنے سلسلہ دیکھنے کو ملا۔ ساری باتوں کو یہاں لکھنا میرے لئے ناممکن ہے اور مجھ میں اتنی قابلیت بھی نہیں ہے کہ میں اعلیٰ اذہان کی باتوں کو سمجھ کر اپنے الفاط میں قارین کے سامنے پیش کرسکوں۔ قارین سے میری گزارش ہے کہ وہ اس انٹرویو کو ضرور دیکھیں۔ اس انٹرویو پر غور کرتے ہوئے میں نے موجودہ اقتصادی نظام پر غور کرنے کی کوشش کی۔ Thomas Pikkety کے علاوہ میں نے the Hindu اور the Indian Express جیسے مؤقر اخبارات کے لئے لکھنے والے the great economists کی باتوں کو سمجھنے کی بھرپور کوششیں کیں تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ آنکھوں سے اوجھل ایک لاوا زمین کے اندر بننے کے بجائے زمیں کی اوپری سطح پر بن رہا ہے۔ اس لاوے کا نام ہے غربت۔ غربت ایسا لاوا ہے جو کئی سالوں سے تپش پکڑ رہا تھا اور آخرکار اس نے اپنی گرمی کا کھلا اظہار کیا ہے۔ اس لاوے کے شکار لگ بھگ سماج کے ستھر فیصد لوگ ہیں۔ جب Oxfam جیسے اداروں نے بھی دولت کا جمع کچھ مخصوص ہاتھوں میں جمع ہونے کا واضح اعلان کیا ہے، تو ایسے میں غرباء کا زندہ لاش ہوکر رہنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ دنیا کے کچھ امیر لوگ پوری دنیا کی دولت پر سانپ کی طرح بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ غرباء سے ان کے نوالے چھین کر ان کو دانے دانے کے لئے ترساتے ہیں۔ اب اگر کوئی دانہ ان کے لئے مہیا بھی رکھتے ہیں تو وہ دانہ مہنگائی کی ہر کوئی حد پار کر گیا ہوتا ہے۔ تو ایسے میں غربت میں اضافہ ہونا یقینی بات ہے۔ بڑی بڑی عمارتوں سے بس امیر لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ رنگین سڑکیں غربت کی مار کھا رہے لوگوں کے لئے کبھی بھی نہیں بنائی جاتی ہے۔ ان پر مالدار لوگ بنا کسی تکلیف کے آرام سے گزر جاتے ہیں۔
جب میں نے غربت کی جڑ تک جانے کی کوشش کی، تو میرا ناقص عمل میرے راستے کی رکاوٹ بن گیا لیکن پھر بھی کچھ ایسے وجوہات ہیں جن کی نشاندہی کرنے میں، میں کامیاب ہوسکا۔ پہلی وجہ ہے ناقص اقتصادی نظام۔ یہ نظام غرباء کے خون سے تو چلتا ہے لیکن فائدہ صرف امیر لوگوں کو ملتا ہے۔ The Invisible Market Forces کی آڑ میں غریب کے تن سے کپڑا اور منہ سے روٹی چھینی جاتی ہے اور دادرسی کے طور پر چھینے ہوئے کپڑوں اور روٹیوں کو مہنگے داموں بیچ کر ان پر احسان جتائے جاتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر لوگ ظلم و زیادتی سے امیر بن گئے ہیں۔ تاریخ کے اوراق ٹٹولنے پر یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ کیسے manipulations اور oppression کا سہارا لے کر غرباء کے بیش قیمت وسائل پر ڈھاکہ مار کر ان کو غربت کا جامہ پہنایا گیا۔ اگر کوئی باشعور انسان موجودہ اقتصادی نظام کو کنگھال کر دیکھے گا تو اس کو یہ بات صاف دکھائی دے گی کہ کیسے اقتصادی طور پر غرباء کا استحصال کیا جاتا ہے۔ دوسری وجہ ہے تنگ نظریہ۔ ہمارے یہاں ایک ایسی غیر عقلی سوچ رائج ہے کہ انسان پریشان ہوجاتا ہے۔ بیشتر افراد کو میں نے کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس دنیا میں کیا رکھا ہے۔ آخرت کی فکر ایک انسان کو دامن گیر ہونی چاہیے۔ بات تو صحیح ہے لیکن مکمل نہیں ہے۔ جب دنیا میں پیٹ کی آگ کو بجھانے کی حیثیت نہ ہونے کے علاوہ مذہبی فرائض ادا کرنے میں بھی دشواریاں پیدا ہوتی ہو، تو ایسا شخص کیسے آخرت کی بھلائی کی باتیں کرسکتا ہے۔ جس شخص کو پیسے میسر نہیں ہوتے ہیں، وہ اپنے آپ کو تسلی دیتا ہے کہ دنیا کے پیسے میں کیا رکھا ہے لیکن دل اس کا پیسوں کے لئے ہی دھڑکتا ہے۔ اس منافقت کی وجہ سے بھی سماج میں غربت کی جڑیں گہری ہوتی چلی جاتی ہیں۔اگر اس شخص نے چیزوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہوتا تو وہ اس نتیجے پر ضرور پہنچ گیا ہوتا ہے کہ مال اور دولت ہی آگے چل کر سب کچھ ہے۔ مال اور دولت کے انبار ہونے کے باوجود اور دنیا کے جھنجھال سے تھوڑا نکال کر خدا کی بندگی میں لگ جانا ہی اصل کامیابی ہے۔ مال کی بے پناہ محبت ہونے کے باوجود اللہ کی رضا پر راضی رہنا ہی کل کامیابی ہے۔ تیسری وجہ ہے وسائل کا زیاں۔ ہمارے یہاں وسائل کا نقصان جنگوں اور دیگر غیر ضروری کاموں میں ہوتا ہے۔ کھربوں کے کھرب ہتھیار خریدنے میں خرچ ہوتے ہیں۔ جنگوں کا سماں پیدا کیا جاتا ہے اور لوگوں کی جمع پونجی لٹنے کے ساتھ ساتھ ان کے مستقبل خواب بھی چکنا چور ہوجاتے ہیں اور غربت لوگوں کے روحوں کے ساتھ چپک جاتی ہے۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ غرباء کی دادرسی کی جائے۔ اگر چھوٹے پیمانے پر ہی سہی، زخموں کا کچھ مداوا ضرورہونا چاہیے۔ افریقہ سے لے کر ایشیاء کے مختلف ممالک میں غربت کی مار نے لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ بے کسی اور بےبسی کے اس عالم میں جہاں ہر آنے والا دن غرباء کی بیساکھیاں چھین رہاہے، زخموں کو کسی حد تک بھرنے کا وقت آگیا ہے۔ جلی ہوئی روحیں اور زخموں سے چھلنی جسموں کو اب امرت کی ضرورت ہے۔ امیروں کے محلوں سے نکلنے والی قہقہے غرباء کے روحوں کو کانپنے پر مجبور کرتے ہیں۔ شکم سیر ہونے کے بعد غرباء کے دُکھ درد کو سمجھنا ناممکن ہے۔ اگر غریب کی سطح پر آکر سوچا جائے، تو زندگی ایک بوجھ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ غرباء کو اپنی حالت زار پر غور و فکر کرنا چاہیے۔اپنی اس حالت کو سدھارنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ مذہب کو ایک نئے زاویے سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ غربت کا حل قرآن و سنت سے نکالنے کے خاطر مستند علماء سے رجوع کرنا بھی وقت کی اہم ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ ہم سب کو اپنی حیثیت کے مطابق غرباء کی فکر کرنی چاہیے۔ کل قیامت کے دن ہم سے غرباء کے بارے میں ضرور سوال کیا جائے گا اور خدا بچائے ہم وہاں رُسوا نہ ہو۔
رابطہ۔7006031540
[email protected]>